Maktaba Wahhabi

81 - 84
بعض لوگوں نے اس مضمون کو اپنے شعروں میں بھی ادا کیاہے۔ وہ کہتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ دنیامیں ہر بھلائی کم ہوتی جاتی ہے اور گھٹ رہی ہے لیکن حدیث بڑھتی جارہی ہے۔ اگر یہ بھی بھلائی ہوتی تواس کا حال بھی اور بھلائیوں کی طرح ہوتا لیکن حدیث کی راہ کا شیطان بڑا سرکش ہے۔ ابن معین لوگوں پر جرح توکرتے ہیں لیکن آخر اللہ کی بارگاہ میں ان سے سوال ہوگا۔ اگر سچ نکلی تب بھی حکم میں غیبت کے ہے۔ اور اگر جھوٹ ہے پھر تو حساب بڑا سخت ہے۔ علامہ حافظ ابوبکر خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شاعر کا یہ قول بالکل لغو ہے۔ علمائے کرام کا راویان حدیث پر جرح کرناغیبت نہیں۔ بلکہ دراصل یہ مسلمانوں کی خیر خواہی ہے اور اس جرح کے تو ظاہر کرنے میں بڑاثواب ہے۔ کیونکہ اس کو ظاہر کرنا فرض ہے اور چھپانا حرام ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ، سفیان بن سعید رحمہ اللہ، سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا جاتا ہے کہ اگر کسی شخص کے حافظے میں نقصان ہے یا اس پر حدیث میں کوئی تہمت ہے تو کیا اسے ظاہر کرنا چاہیئے ؟سب بزرگوں نے بالاتفاق فرمایا کہ اسے ضرور ظاہرکردو۔ ابو مسہر سے بھی سوال ہوتا ہے کہ اگرحدیث کا کوئی راوی غلطی کرنے والا ہو یا اس پر جھوٹ کا خیال ہو۔ یا ہیر پھیر کردیتا ہو تو اس کی یہ حالت بیان کر دینی چاہیئے ؟کہا ہاں ضرور ظاہر کر دو پوچھا گیا پھر یہ غیبت تو نہ ہوگی ؟فرمایا ہرگز نہیں۔ چونکہ ا س بحث کو ہم اپنی کتاب الکفایۃ میں بیان کر چکے ہیں اس لئے اب یہاں اس سے زیادہ لکھنا ضروری نہیں جانتے۔ اب ہم پھر اصل بحث کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ سفیان رحمہ اللہ کے پہلے قول کامطلب غریب اور منکر حدیثیں ہیں۔ نہ کہ معروف اور مشہور حدیثیں۔ اسلئے کہ شاذ روایتیں اور منکر حدیثیں بھی بکثرت ہیں۔ اور امام سفیان رحمہ اللہ ان کے بیان کرنے میں خیر وبرکت نہیں جانتے تھے۔ اور ثقہ لوگوں کی روایت اس کے خلاف پاتے تھے۔ اور بزرگان سلف اور فقہائے امت کا عمل بھی اس کے خلاف پاتے تھے۔ اس لئے کہ ان کے بیان
Flag Counter