Maktaba Wahhabi

117 - 166
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے دورِ جدید کے مغربی اسکالرز کا موقف سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے دوسرا دور کہ جسے مغرب علمی اسلوب اور رویے (academic scholarship) کا نام دیتا ہے، بھی اپنے مقاصد کے اعتبار سے پہلے دور سے قطعاً مختلف نہیں ہے۔ اس دور کے نامور مستشرقین کے نزدیک بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو اللہ کے بھیجے ہوئے سچے رسول ہیں اور نہ ہی قرآن مجید کوئی آسمانی کتاب ہے۔ ان میں سے بعض آپ کو مخلص گردانتے ہوئے وحی کے سلسلے کو خطائے حس (hallucination) قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حراء میں امر واقعی میں کسی فرشتے یا جبرائیل علیہ السلام کو نہیں دیکھا تھا بلکہ مراقبوں (Meditation)کی کثرت کی وجہ سے آپ اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ آپ نے غار حراء میں کسی کو دیکھا ہے یا کسی نے وہاں آپ سے کچھ پڑھنے کو کہا ہے۔ جبکہ مستشرقین کی ایک اور جماعت آپ کو محض ایک سماجی مصلح (social reformer) قرار دیتے ہوئے آپ کی تعریف میں رطب اللسان رہتی ہے۔ یعنی وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بہترین انسان یا اچھاقومی لیڈر ماننے کوتو تیار ہیں لیکن رسول یا نبی نہیں۔ اس دور کے یہ سب مستشرقین الگ الگ راگ الاپنے کے باوجود اپنے مقصد میں یکسو ہیں اوروہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ حیثیت کا انکار کرنا ہے۔ دوسرے دور کے معروف مستشرقین میں ہمیں اسپرنگا، ولیم میور، صموئیل مارگولیتھ اور منٹگمری واٹ کے نام ملتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان کے افکار کا جائزہ پیش کر رہے ہیں۔ ایلائس سپرنگا (Aloys Sprenger) ایلائس سپرنگا Aloys Sprenger (۱۸۱۳۔۱۸۹۳ء) ایک آسٹرین عیسائی مستشرق تھا جو ۱۸۱۳ء میں پیدا ہوا۔ آسٹرین یونیورسٹی آف وی اینا (University of Vienna) سے طبعی اور مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد لندن چلا گیا۔ مسلمانوں میں عسکری علوم وفنون کی تعلیم وتربیت کی تاریخ کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور ۱۸۴۳ء میں کلکتہ آگیااور یہاں دہلی کالج کا پرنسپل مقرر ہوا۔ ۱۸۴۸ء میں لکھنؤ گیا اور وہاں شاہی لائبریری کی فہارس تیار کیں۔ ۱۸۵۰ء میں اسے ایشیائی سوسائٹی آف کلکتہ(Asiatic Society of
Flag Counter