Maktaba Wahhabi

70 - 166
وجاء یوم العید فی زینته..لمثل هذا فلیعمل العاملون30 مسلم اسکالرز کا کہنا یہ ہے کہ اس بات کی کوئی تاریخی دلیل نہیں ہے کہ یہ اشعار اُمیہ اور امرؤ القیس کے ہیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ بنوعباس کے دور کے کسی شاعر کے اشعار ہیں کہ جس نے اپنی شاعری میں قرآنی اسلوب کے ٹانکے لگائے ہیں۔ عربی زبان وادب کے طلبہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلامی دور کے بعض شعراء نے اپنے کلام کی نسبت جاہلی شعراء کی طرف بھی کی ہے،جیسا کہ ہمیں حماد الراویہ اور خلف الأحمر کے نام ملتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی بعید نہیں ہے کہ ما بعد کے زمانوں کے کسی شاعر نے اپنے کلام میں قرآنی اسلوب کا ٹانکا لگانے کے بعد اس کی نسبت بڑے شعراء کی طرف کر دی ہو۔31 اُمیہ بن ابی صلت طائف کا رہنے والا تھا۔ نزولِ وحی کے زمانے میں یہ شخص موجود تھا اور ۹ ہجری میں اس کی وفات ہوئی ہے۔اسے بت پرستی سے بے رغبتی تھی۔دورِ جاہلیت میں اس کا شمار حنفاء میں ہوتا تھا۔ ایک نبی کے آنے کی خبر بھی دیتا تھالیکن اسے امید یہ تھی کہ وہ نبی یہ خود ہو گا۔ پس جب اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے خبر ملی تو حسد کی وجہ سے انکاری ہوا۔ یہ بحرین چلا گیا تھا اور ۸ سال قیام کے بعد جب واپس طائف آیا تو اس نے اہل طائف سے پوچھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو نبی قرار دیتے ہیں جیسا کہ تم اس کی خواہش رکھتے تھے۔ اس پر وہ طائف سے مکہ آیا اور آپ سے ملاقات کی اور آپ سے پوچھا کہ آپ کیا کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ اس نے کہا: میں آپ سے کل گفتگو کروں گا اور اپنی ایک جماعت لے کر آؤں گا۔ آپ بھی صحابہ کی جماعت کے ساتھ تشریف لائے اور لوگ بیت اللہ کے سائے میں بیٹھے۔ اُمیہ نے پہلے اپنا کلام پیش کیا، نثر کہی اور پھر شعر کہا۔ اب اس نے آپ سے کہا: اس کا جواب دیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ یس کی تلاوت شروع کی اور جب آپ نے سورۃ مکمل کر لی تو وہ اچھل کر کھڑا ہوا اور پاؤں گھسیٹتے ہوئے مجلس سے دوڑ گیا۔ قریش کے سرداروں نے اس کا پیچھا کیا اور پوچھا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے تمہاری کیا رائے ہے۔ اس نے کہا: وہ حق پر ہیں۔ انہوں نے پوچھا: کیا تم ان کی اتباع کرو گے؟ اس نے کہا: میں
Flag Counter