Maktaba Wahhabi

76 - 166
قرآن مجید تثلیث (Trinity)، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ (Son of God) ہونے اور انہیں صلیب دیے جانے کی نفی کرتا ہے۔ اگر تو قرآن مجید ان اناجیل کا محض ناقل ہی ہوتا تو ان سے اختلاف نہ کرتا۔46 علم تاریخ کی روشنی میں کوئی ایسی گواہی موجود نہیں ہے جو اس بات کی دلیل ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انجیل کا عربی ترجمہ موجود تھا۔ مشرکین مکہ نے بھی آپ پر یہ اعتراض وارد کیا تھا کہ کوئی عیسائی معلم آپ کو تعلیم دیتا ہے، لیکن جسے آپ کا معلم قرار دیا جا جاتا تھا، اس کی زبان عجمی تھی اور قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: [وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ ۭ لِسَانُ الَّذِيْ يُلْحِدُوْنَ اِلَيْهِ اَعْجَمِيٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِيْنٌ ١٠٣؁]47 ’’اور ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ مشرکین کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قرآن کی تعلیم ایک شخص دیتا ہے۔اور جس کی طرف یہ نسبت کرتے ہیں اس کی زبان توعجمی ہے حالانکہ یہ قرآن مجید فصیح عربی زبان میں ہے۔‘‘ اسی طرح قرآن مجید کے جو مصادر بیان کیے جاتے ہیں یعنی تورات وانجیل، ان کے قدیم ترین نسخے عبرانی اور یونانی میں تھے اور یہ دونوں زبانیں اہل عرب کے لیے اجنبی تھیں۔ بائبل کا قدیم ترین عربی ترجمہ نویں صدی عیسوی میں ہوا ،یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً دو سو سال بعد۔48 قرآنی نص پر مستشرقین کے اعتراضات مستشرقین نے قرآن مجید کی نص پر کئی ایک اعتراضات وارد کیے ہیں جن میں سے چند ایک کو ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں: (۱)کہانت (Devinition) کا بہتان: بعض مستشرقین کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق وامانت میں کوئی شک نہیں ہے اور ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ ایک عبقری انسان اور عظیم مصلح تھے، لیکن انہیں جو الہامات وحی کی صورت میں ہوتے تھے وہ کسی عالم غیب یا ماورائی دنیا سے نہ تھے یا
Flag Counter