Maktaba Wahhabi

80 - 166
دنیا کی تاریخ میں، حامل قانون (Law giver) یا سربراہ ریاست (Head of the State) رہا ہے؟ علاوہ ازیں یہ نفسیاتی عوارض ایسے ہیں جو فکری صلاحیتوں کے مٹانے،حافظے کی کمزوری اور مزاج کے بگاڑ کا باعث بنتے ہے جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فکری صلاحیت اور سیاسی بصیرت اس کا انکار کر رہی ہے۔ اور یہ اعتراض ایسا نہیں ہے جو پہلی مرتبہ مستشرقین نے کیا ہو۔ مستشرقین کے جمیع اعتراضات وہی ہیں جو مشرکین مکہ ان سے صدیوں پہلے کر چکے تھے۔ اسلام کے معاصر مخالفین تو ذہنی اعتبار سے اس قدر پس ماندگی کا شکار ہیں کہ کوئی نیا اعتراض بھی پیدا نہ کر سکے۔ جبکہ ان اعتراضات کے اصل موجد یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی سوسائٹی آپ پر ایمان لا کر ان جمیع اعتراضات کے لغو ہونے کاانکار کر چکی تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: [مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ Ą۝ۚ]58 ’’( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! )آپ اپنے رب کی نعمت سے دیوانے نہیں ہیں۔‘‘ (۳)خود کلامی (Soliloquy) اور کلام نفسی کا اعتراض: ولیم میور کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم عرب معاشرے کی پست اقدار سے تنگ تھے، لہٰذا آپ غوروفکر اور مراقبوں کی طرف مائل ہوئے جس کے نتیجے میں آپ نے خدا، انسان، آخرت اور خیروشر کے بارے میں کچھ تصورات کو شاعری یا خود گوئی (Poetry and Soliloquy)کی صورت میں بیان کرنا شروع کیا۔ لیکن جب مخاطبین نے یہ کہا کہ ایک پیغمبر زیادہ اس لائق ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوزیشن پر غور کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے نازل شدہ ہے اور انہوں نے اس ذہنی کیفیت میں کچھ عجیب سا منظر (apparition)دیکھا جسے انہوں نے فرشتے سے تعبیر کیااور وہ مسلسل ایسا کلام پیش کرتے رہے جو ان کے دل ودماغ میں موجود حد تک بڑھے ہوئے جوش وجذبے کے نتیجے میں نیم مدہوشی کے عالم میں ان سے صادر ہوتا تھا59۔ ولیم میور کے اعتراضات کا جواب سرسید احمد خان نے اپنی کتاب ’خطبات احمدیہ‘ میں دیا ہے جو ۱۹۰۰ء میں علی گڑھ سے شائع ہوئی اور اس کا انگریزی ترجمہ ۷۰۔۱۸۶۹ء میں لندن سے شائع ہواتھا۔
Flag Counter