Maktaba Wahhabi

71 - 166
ابھی اس بارے غور کروں گا۔32 اُمیہ نے نزول وحی کا زمانہ پایاہے اور ۹ ہجری تک زندہ رہا ہے، لہٰذا جہاں مستشرقین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن مجید اس کے اشعار سے ماخوذ ہے وہاں اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ اُمیہ نے قرآن کے مضامین اور اسالیب کو اپنے اشعار میںنقل کیا ہو، جیسا کہ اُس نے تورات وانجیل کے مضامین کو بھی اشعار کی صورت دی ہے۔ پس محض اسی پر اصرار کرنا کہ قرآن مجید، اُمیہ کے اشعار سے استفادہ کرتا ہے، غیر علمی رویہ ہے۔ استاذ محمد عبد المنعم خفاجی کا کہنا یہ ہے کہ اُمیہ اپنے اشعار میں قرآنی اسالیب وتراکیب سے استفادہ کرتا ہے۔ اُمیہ اپنے اشعار میں اکثر وبیشتر آخرت، جنت، جہنم اور سابقہ امتوں کے قصے بیان کرتا تھا۔ اس کے اشعار میں بہت سے قصے ایسے ہیں جو تورات وانجیل کے بیان سے کلی طور مشابہہ ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے قرآن مجید کی طرح تورات وانجیل سے بھی استفادہ کیا ہے۔33 مشرکین مکہ، جو آپ کو شاعر،کاہن اور مجنون کا لقب دینے سے بھی باز نہیں آئے، کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کی اُمیہ کے اشعار سے مشابہت کو نظر انداز کر دیا ہو۔ عتبہ بن ربیعہ جب سردارانِ قریش کا مطالبہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے اسے قرآن کا کچھ حصہ سنایا تو اس نے واپس آ کر اپنی مجلس میں یہی بیان دیا کہ میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے جو نہ شعر ہے،نہ کہانت۔34 (۲)عرب حنفاء: بعض مستشرقین نے دورِ جاہلی میں موجود حنفاء کو بھی قرآن مجید کا ایک مصدر قرار دیا ہے۔ ان کے بقول ان حنفاء کے افکار اور قرآن مجید کے مضامین میں بہت حد تک تشابہہ پایا جاتا ہے، مثلاً وحدانیت کی دعوت دینا، بت پرستی کا انکار، وعدو وعید،اللہ کو رحمن، رب اور غفور جیسے ناموں سے پکارنا، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرنا اور بعث بعد الموت اور حشر ونشر کا اقراروغیرہ۔آسٹرین مستشرق ایلائے سپرنگا Aloys Sprenger (۱۸۱۳۔۱۸۹۳ء) کا خیال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی کل فکر زید بن عمرو بن نفیل سے
Flag Counter