Maktaba Wahhabi

140 - 166
واہیات خبریں نقل کی گئی ہیں۔ تاریخ کی جس کتاب میں ’’بیان کفر أبی بکر وعمر‘‘ یعنی ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہ کے کافر ہونے کا بیان کے نام سے باقاعدہ باب باندھا گیا ہو، اس کے معتصب یا جھوٹا ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ جہاں تک ابو الفرج علی بن الحسین اصفہانی(متوفی ۳۵۶ھ) کی کتاب کا معاملہ ہے تو وہ ادب کی کتاب ہے نہ کہ تاریخ کی۔ ابو الفرج اصفہانی کی اس کتاب کے بارے بھی اہل علم کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ اہل تشیع کے منہج پر مرتب کی گئی ہے۔ خطیب بغدادی (متوفی ۴۶۳ھ)، علامہ ابن جوزی (متوفی ۵۹۷ھ) اور امام ابن تیمیہ (۷۲۸ھ)  وغیرہ نے اس کتاب پر اس اعتبار سے شدید نقد کی ہے کہ یہ رطب ویابس کا مجموعہ ہے اور جھوٹ وکذب سے بھری پڑی ہے18۔ یہ دونوں کتابیں تاریخ اسلام پر طعن کے لیے مستشرقین کے بنیادی مصادر میں سے ہیں۔ 19 بروکلمان کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ عراق کے موالی (Non Arab Muslims) کو اسلام قبول کرنے کے بعدبھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔ 20 بروکلمان کا یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے ۔تاریخ اسلامی کے سینکڑوں واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ موالی (Non Arab Muslims) کو عرب مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل تھے۔ قاضی شریح رحمہ اللہ جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عبد الملک بن مروان کے زمانے تک کوفہ کے قاضی رہے، موالی میں سے تھے۔ بعد ازاں حجاج ثقفی نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو کوفہ کا قاضی مقرر کیاتو لوگوں نے اعتراض کیا۔ اس پر اس نے اگرچہ ابو بردۃ کو گورنر مقرر کر دیا لیکن ساتھ ہی انہیں یہ حکم بھی دے دیا کہ کسی بھی معاملے کا فیصلہ سعید بن جبیررحمہ اللہ کے مشورے کے بغیر نہ کریں۔ عامر شعبی رحمہ اللہ کوفہ میں جبکہ حسن بصری رحمہ اللہ بصرہ میں اور عبد اللہ بن یزیدرحمہ اللہ مصر کے قاضی تھے اور یہ سب موالی میں سے تھے۔ یزید بن ابی حبیب، عبد اللہ بن جعفر اور لیث بن سعد رحمہ اللہ مصر کے کبار مفتیوں میں سے تھے اور یہ بھی موالی میں سے تھے۔ 21 امام زہری رحمہ اللہ اور عبد الملک بن مروان کے مابین پہلی ملاقات کا ایک مکالمہ بہت معروف ہے جسے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔ اس مکالمہ کے الفاظ یہ ہیں:
Flag Counter