Maktaba Wahhabi

101 - 236
وإن كان لا ينكران لآراء إبراهيم النخعي أثرا خاصاً في تفقيه الإمام أبي حنيفة واجتهاده (حوالۂ مذکور) لیکن اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اجتہاد اور تفقہ پر خاصا اثر ہے۔ اھ شاہ صاحب نے حجۃ اللہ میں جہاں یہ تقابل فرمایا ہے ان کا مقصد قلت وکثرت عددی اور حساب کے قواعد کے لحاظ سے نہیں ان کا مقصد یہی تاثر ہے۔ آخر آپ حضرات صاحبین کو دو تہائی مذہب میں اختلاف کے باوجود حضرت امام والا مقام کے مقلد مانتے ہیں۔ حضرت امام بن امام نخعی سے متاثوں ہو تو اس میں جرم کیا ہے اگر تقلید کا مطلب یہی تاثر ہے تو یہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے۔ میرا خیال ہے کہ دیوبندی ذہن یا حضرت احناف سے توحید پسند گروہ پر یہ تیسرا انقلاب رو نما ہو رہا ہے۔ 6 مئی 1831ء سے پہلے یہ حضرات اہل حدیث سے قریب تھے اور حنفیہ کے باوجود فقہی جمود کو نہ صرف یہ کہ پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ اسے کلی طور پر ختم کرنا چاہتے تھے یہی شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان کا اصلی تجدیدی کارنامہ تھا۔ 1831ء کے بعد ان میں اکثر حضرات تحریک توحید اور اقامتِ دین سے بالکل الگ ہوگئے اور اسلام کی خدمت کے لئے صرف اسی حد تک مطمئن ہوکئے جو اشاعت حنفیت اور فقہی جمود کے مرادف ہو۔ یہ لوگ شاہ صاحب کے خلفاء کے ساتھ نہ چل سکے۔ اس لئے وہ جامد تقلید کے حامی نہ تھے۔ دیوبند کی تاسیس حنفیت خالصہ کی اشاعت کے لئے عمل میں آئی لیکن محدثین کا احترام شاہ صاحب کی تحریک سے ان کو وراثت میں ملا تھا اور جو حضرات علامہ کوثری سے متاثر ہیں۔ یہ حضرات جمود کے داعی ہیں اور ائمہ حدیث سے بغض ان حضرات کو علامہ کوثری سے وراثت سے ملا ہے اور اس کے ساتھ ہی حدیث کو حجت شرعی سمجھتے ہیں۔ یہ ہلکا سا تضاد ہے جسے علم اور مطالعہ کے زور سے اطمینان قلب کی حد تک یہ حضرات حل فرما لیتے ہیں۔ لیکن ان حضرات کے اذہان میں شاہ صاحب کے تجدیدی کاناموں کا وہ احترام نہیں جو قدماء دیوبند میں تھا۔ خدا کرے کہ یہ حضرات وسعت مطالعہ سے فکری جمود کو توڑیں اور اپنے نظریات کی بنیاد تقلید کی بجائے علم اور تحقیق پر رکھیں۔ ظاہری تنقیص کے باوجود اس میں محدثین کے مسلک کی تائید اور توثیق ہوگی۔ ہماری دلچسپیاں اس نئی تحریک کے ساتھ ہیں۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کی توفیق مرحمت فرمائے۔
Flag Counter