طور پر اسی خاندان کو ملنا چاہئے۔ اس لئے اہل بیت کی طہارت وعصمت میں غلو کیا گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی قرار دیا گیا۔ نماز اور اذان تک اسی مقصد کے مطابق تبدیل کر دی گئیں۔ لیکن جب اموی اقتدار نے محمد بن الحنفیہ جیسے خاندانی لوگوں کو یزید کی دوستی پر مجبور کر دیا تو تحریک کی معنویت ختم ہوکئی اور اس کے انقلابی ارادے عدم کی نظر ہوگئے۔ تحریک کے ناکام لیڈروں نے تحریک کو عقیدے اور مذہب کا رنگ دے دیا اور اس طرح یہ وقتی مسئلہ ہمیشہ کی تفریق اور دشمنی کا موجب ہوکیا۔ لیڈروں کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی یہی صورت تھی جس کے نتیجہ میں اہل بیت کا تقدس بڑھ چڑھ کر بیان کیا گیا ان کی قبریں پجنے لگیں۔ مجلس عزا نے ایک جشن کی سی صورت اختیار کر لی اور ماتمی جلسہ تقریب شاہی کی نمائش کرنے لگا۔ تحریک مقصد حیات کے لحاظ سے ختم ہوگئی۔ لیکن لا زوال دشمنی اور تفریق کی ایک بیماری سی امت میں چھوڑ گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہےکہ شیعہ وسنی مسلمان میں ایک نوع کا بُعد سا پیدا ہوگیا۔ خوارج نے اس غلو کو توڑنا چاہا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اہل بیت بشری تقاضوں سے بالا نہیں ہیں۔ نہ وہ معصوم اور بے گناہ ہیں اور نہ غلطیوں سے محفوظ ۔ بلکہ فی الواقع ان سے غلطیاں سرزد ہوئی۔ اس اظہار بیان نے غلو کی صورت اختیار کی اور اہل بیت کی تکفیر تک نوبت پہنچ گئی۔ اہل بیت کے اقتدار کے خاتمہ کے ساتھ تحریک کی عملی حیثیت بھی ختم ہوگئی۔ تحریک کے ناکام لیڈروں نے اسے بھی مذہب اور فلسفہ کا رنگ دے کر ایک جدید مذہب کی بنیاد رکھ دی جس کا اسلام سے بہت کم تعلق ہے۔ متکلمین ومبتدعین اسی طرح بعض عقل پرست حضرات نے اسلام کو اصطلاحی عقل اور عرفانی فلسفہ کے ساتھ آمیز کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں اعتزال اور جہمیت پیدا ہوئی۔ خلق قرآن اور صفت باری کی عینیت اور غیریت کے بے ضرورت مباحث پیدا ہوگئے۔ اسلام کو عقل کی روشنی میں سمجھنے کی بجائے اسلام کے بعض اساسی اور بنیادی مسائل کا انکار کیا جانے لگا۔ ہمارے متکلمین پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی یہ پھبتی کس قدر صحیح ہے: لا للإسلام نصروا ولا للفلاسفة كسروا (قصیدہ نونیہ) ’’نہ اسلام کی مدد کر سکے اور نہ فلاسفہ ہی کی یورش کا مقابلہ کر سکے۔‘‘ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |