آخر علماء اسلام اور ائمہ حدیث نے جب یونانی فلسفہ کا تارپود بکھیر کر رکھ دیا اور یونانی فلسفہ کے وکیل مقدمہ ہار گئے اور ائمہ سنت نے مدافعت کی بجائے فلسفہ پر براہ راست حملے شروع کئے تو اعتزال وجہمیت ایسی تحریکیں اور متکلمین کی موشگافیاں ہی ختم ہوکئیں۔ اور یہ تحریک بھی صرف کتابوں کے اوراق کی زینت بن کر رہ گئی۔ غرض ہر وقتی تحریک کا یہی حشر ہوا۔ اور وہ اپنا کام کر کے یا ناسازگاری حالات کے اثر سے بے اثر ہوگئی۔ معمّر ترین تحریک اس سارے عرصہ میں تحریک اہل حدیث بدستور کام کرتی رہی۔ اس میں ایسی جامعیت تھی کہ اس کے خدمت گزاروں کو دنیا کے ہر گوشے میں کام ملتا رہا۔ اور ان کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ پہلی صدی ہجری میں حفظ اور کتابت حدیث۔ دوسری میں تدوین حدیث اور تصنیف وتالیف کی تاسیس کے کام۔ اس کے علاوہ اعتقادی اور عملی بدعات سے دست بدست لڑائی۔ ان بدعات نے جن چور دروازوں کو تخریبِ اسلام کے لئے کھولا تھا ان کی نگرانی اس کے ساتھ مسلمانوں کے جماعتی شیرازہ کی حفاظت تاکہ بیرونی حملوں سے اسلام کی سیاسی قوت تباہ نہ ہوجائے۔ یہ وہ دور اندیشیاں ہیں جن کے نتائجِ فکر نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے بحر ذخّار کو جیل جانے پر مجبور کیا۔ پھر بوقتِ ضرورت اسی حکومت کی حمایت میں جس نے شیخ کو جیل بھیجا ایک سپاہی کی طرح میدان کارزار میں دادِ شجاعت دیتے نظر آئے اور ہلاکو اور چنگیز کی فوجوں سے برسوں سینہ سپر رہے۔ یہ اعتدال مزاج اور حفظِ مراتب کے وہ عظیم الشان کارنامے اور فوق العادات کام ہیں۔ جو شائد ائمہ سنت اور ارباب حدیث ہی کا حصہ تھا۔ اور یہ تحریک سب سے معمر اور قدیم ترین تحریک ہے، جو ان فتنوں سے عہدہ برآ ہو کر زندہ رہی۔ کیونکہ یہ تحریک نہ وقتی تھی نہ ظروف واحوال کی پیداوار بلکہ اس کا مقصد: پورے اسلام کی خدمت تھا۔ فتح ہند اور اہل حدیث سب سے پہلا قافلہ جو فاتحانہ حیثیت میں ساحل ہند پر وارد ہوا۔ وہ اہل حدیث کا تھا، آج بھی |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |