ان دونوں کو اپنا مشغلہ قرار دے اور ہر دو سے کچھ حصہ روزانہ پڑھے اور اگر پڑھ نہ سکے تو چند اوراق کا ترجمہ سنے اور عقائد میں سلف اہل سنت کی روش اختیار کرے اور ائمہ سلف کی طرح موشگافیوں سے بچے اور خام کار معقولیوں کی شک آفرینیوں سے بچے اور فرعی مسائل میں ان محدثین کا اتباع کرے جو حدیث اور فقہ دونوں سے پوری طرح واقف ہوں اور فقہی مسائل کو ہمیشہ کتاب و سنت پر پیش کرے جو موافق ہو اسے قبول ورنہ بالکلیہ نظر انداز کر دے ۔ امت کو اپنے اجتہادات کو کتاب و سنت پر پیش کرنے سے کبھی استغنا حاصل نہیں ہوا اور ضدی قسم کے فقیہ حضرات جنہوں نے بعض اہل علم کی تقلید کو دین کا سہارا بنا رکھا ہے اور کتاب و سنت سے اعراض ان کا شیوہ ہے ، کی بات تک نہ سننا اور ان کی طرف نگاہ مت اٹھانا اور ان سے دور رہنے میں ہی خدا کا قرب تلاش کرنا۔ ھ شاہ صاحب کے دانشمندانہ اور جرات آمیز اعلان سے تعجب ہوتا ہے۔ شاہ صاحب نے جس ماحول میں تربیت پائی تھی، وہ فقہی جمود کا دور تھا۔ اس وقت کا بہت بڑا متدین اور روشن خیال بادشاہ وہ اسلام کی جو سب سے بڑی خدمت کر سکا وہ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف تھی جسے فتاویٰ ھندیہ کہا جاتا ہے۔ عالمگیر نے اسلامی قانون کی بہتر تعبیر کے لیے وقت کے بہترین علماء کو جمع کیا، ان مقدس بزرگوں نے اپنے وسیع علمی معلومات کی روشنی میں فقہ حنفی کی یہ بہترین خدمت انجام دی۔ اس کتاب کی خوبی صرف اسی قدر ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ کے اقوال سے اوفق بالمصالح اقوال کو لے لیا گیا اور مختلف فیہ کو اسی طرح درج کر دیا گیا ہے تاکہ جس پر مناسب ہو عمل کر لیا جائے۔ گویا اس دیرینہ جمود میں ایک محدود مقام تک حرکت کی کوشش کی گئی۔ قرآن اور سنت یا دوسرے ائمہ کے مذاہب کے لحاظ سے شرعی مصالح کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حضرت شاہ صاحب نے اسی ماحول میں پڑھا اور غالباً والد صاحب کی زندگی میں مسند درس کی زینت بنے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کے دروس اور طریق افتاء سے طالب علم اور اس وقت کے عوام مطمئن تھے لیکن خود شاہ صاحب مطمئن نہ تھے۔ جس چشمہ سے عام دنیا سیرابی حاصل کر رہی ہے وہ چشمہ خود اپنی سوتوں میں تشنگی اور خشک سالی محسوس کر رہا تھا۔ جامد اور تقلید مزاج طبایع اپنی رسائی اور فہم کے لحاظ سے سمجھ رہے تھے فقہ حنفی اور اس کے مصالح کی ترجمانی کا حق صحیح طور پر ادا ہو رہا |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |