Maktaba Wahhabi

68 - 236
1. فقہاء کا باہم اختلاف اور مزاحمت، جس کا انقطاع کسی پہلے بزرگ کے حوالہ کے بغیر نہ ہوسکا۔ 2. رؤساء کی جہالت اور علماء کا حدیث اور تخریج سے نا آشنا ہونا۔ 3. دور از کار فرضی مسائل میں تعمق وغیر ذلک اس کے نتائج کے متعلق شاہ صاحب فرماتے ہیں: ’’اس کے نتیجہ میں جہالت، اختلاط، شکوک اور اوہام پیدا ہوگئے جس کی اصلاح کی کوئی اُمید نہیں رہی۔ پھر مدتوں خالص تقلید ہی ان کا شیوہ رہا اور حق وباطل کا امتیاز جاتا رہا اور فقہ محض جھگڑے اور باتیں بنانے کا نام رہ گیا۔ اور محدث چند غلط سلط احادیث نقل کر دینے کا نام رہ گیا۔‘‘ آخری الفاظ سنیئے: ولم يأت قرن بعذ ذلك إلا هو أكثر فتنة وأوفر تقليدا وأشد انتزاعًا للأمانة من صدور الرّجال حتى اطمأنوا بترك الخوض في أصول الدين وبأن يقولوا لنا وجدنا آباءنا على أمة وأإنا على آثارهم مقتدون. إلى الله المشتكى. اھ (حجۃ اللہ البالغۃ ج1 ص134) ان تصریحات کا نتیجہ 1. اہل حدیث اور اہل الرائے دونوں مکتب فکر ہیں اور دونوں اہل علم میں رائج ہیں۔ 2. شاہ صاحب کے خیال میں اہل حدیث اور اہل الرائے اس آخری دور میں اپنی جگہ سے ہٹ چکے ہیں۔ 3. متاخرین اہل الرائے میں استدلال اور استنباط کی بجائے تقلید اور جمود آگیا ہے۔ یہ شاہ صاحب کی نظر میں نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ 4. اہل حدیث نے بھی حدیث کی طرف بے توجہی کی ہے وہ تقریباً اسے ایک رسم کے طور پر رکر رہے ہیں۔ استنباط اور اجتہاد کے نقطۂ نظر سے نہیں کرتے اور نہ تفقہ کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہ صاحب کا مقصد شاہ صاحب چاہتے ہیں کہ دونوں گروہ حقیقت پسندی سے کام لیں۔ اور اہل الرائے اکابر کی بجائے
Flag Counter