حدیث شریف میں ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھی اس نے رکوع وسجود اطمینان سے نہیں کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین دفعہ فرمایا: صل فإنك لم تصل (مسلم بخاري) تم نماز پڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ یعنی شرعاً تمہاری نماز کا کوئی وجود نہیں۔ اسی حدیث کی بناء پر اہل حدیث اور شوافع وغیرہم کا بھی یہی خیال ہے کہ اگر رکوع اور سجود میں اطمینان نہ ہو تو نماز نہیں ہوگی۔ احناف فرماتے ہیں: رکوع اور سجود کا معنیٰ معلوم ہوجانے کے بعد ہم حدیث کی تشریح اور نماز کی نفی قبول نہیں کرتے۔ قرآن کی عظمت اسی اصل کی حمایت میں یہ عذر فرمایا گیا ہے کہ اگر شوافع کے مسلک یا حدیث پر یقین کرتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ نماز میں اطمینان فرق ہے تو یہ قرآن پر زیادتی ہوگی۔ جو نسخ کے مرادف ہے۔ جب قرآن عزیز نے خاص الفاظ سے ایک حقیقت کا اظہار فرما دیا اس پر زیادتی کسی طرح درست نہیں۔ ایسا کرنا یا سمجھنا قرآن عزیز کی عظمت اور اس کی رفعت شان کے منافی ہے۔ قرآن کی عظمت واقعی ضروری ہے لیکن اس آڑ میں مقام نوبت کا تعطّل ہو جائے۔ پیغمبر کو یہ بھی حق نہ رہے کہ وہ قرآن عزیز کے مفہوم کی تعیین فرمائیں۔ کسی عمل کی شرعی ہیئت کا اظہار یا کوئی ایسا حکم جس سے قرآن عزیز نے سکوت فرمایا ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے بیان نہ فرما سکیں۔ خود صاحب وحی بھی اپنی وحی کا مطلب بیان نہ فرما سکیں۔ مجتہد اور فقیہ، عالم اور صوفی تو اپنے خیال سے اپنی استعداد کے مطابق قرآن کا مطلب بیان فرمالیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا جائے کہ آپ قرآن کے متعلق کچھ نہیں فرما سکتے یہ عجیب ہے۔ آخر یہ اصول بھی تو قرآن فہمی ہی کے لئے بنائے گئے۔ اور ان کے بنانے میں بقول صاحب کشف الظنون ص89 زیادہ کوشش معتزلہ اور اہل حدیث نے کی۔ ان کا احترام تو اس قدر رکھا کہ حدیث بھی ان کے ہوتے ہوئے نظر انداز فرما دی گئی اور نصوص نبوی کے لئے یہ گنجائش بھی نہ رکھی گئی کہ وہ قرآن عزیز کی وضاحت فرما سکیں۔ حالانکہ قرآن عزیز یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری کے طور پر متعین فرمایا ہے: ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا ہم نے ذکر تم پر اس لئے اتارا کہ آپ لوگوں |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |