Maktaba Wahhabi

99 - 236
تجدیدی عوامل اور مقاصد کی روشنی میں دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچائیں گے۔ وہ بریلویت سے ڈر کر اور وہابیت کی تہمت سے گھبرا کر دم توڑ گیا اور اپنے موحد ساتھیوں کو چھوڑ کر بریلوی حضرات سے صلح کی راہیں تلاش کرنے لگا۔ 6 مئی 1831ء کے بعد یہ گروہ بدستور پسپا ہوتا گیا اور نہ صرف یہ کہ میدان دغا سے پیچھے ہٹ گیا بلکہ تحریک کی روح جمود اور آزادی فکر سے بھی دستکش ہوگیا۔ میں نے سابقہ گزارشات میں شاہ صاحب کی تحریک کے مقاصد کا تذکرہ حضرت شاہ صاحب کی زبان اور حضرت ہی کے ملفوظات سے عرض کیا ہے۔ آپ خود فیصلہ فرمائیں گے کہ شاہ صاحب کے ساتھ انتہائی عقیدت کے باوجود یہ امانت محفوظ نہیں رکھی جا سکی۔ بلکہ شاہ اسحاق کے تلامذہ سے اس کی سرپرستی صرف شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب اور ان کے تلامذہ نے فرمائی۔ جب تحریک کے سیاسی مقاصد کی تکمیل بظاہر مشکل ہو گئی تو اسے زیرِ زمین لے جا کر اپنی بساط کے مطابق اسے زندہ رکھا گیا۔ مولانا ولایت علی اور مولانا عنایت علی صاحب سے شروع ہو کر مولانا عبداللہ صاحب غازی پوری اور مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آبادی اور اس کے بعد مولوی ولی محمد اور مولوی فضل الٰہی مرحوم اور محمد حسین مجاہد کوٹ بھوانیداس وغیرہم نے اس کے لیے سردھڑ کی بازی لگائی۔ رہے حضرات دیوبند سو وہ ملک کی ملی جلی تحریکات میں کام کرتے رہے لیکن یہ خالص دینی تحریک ان کے فیوض سے محروم رہی تاآنکہ ملک کی تقسیم نے صورت حال کو بالکل بدل کر رکھ دیا یہ تو سیاسی صورت حال تھی، لیکن دینی پہلو سے یہ حضرات شاہ صاحب کے پروگرام سے کافی الگ ہو گئے۔ جس جمود کو شاہ صاحب ختم کرنا چاہتے تھے، دیوبند نے پورے زور سے اس کے احیاء کی دعوت دی۔ پوری قوت سے اس کی سرپرستی کی۔ اس لیے میری ناقص رائے یہ ہے کہ شاہ صاحب کی تحریک کے مقاصد کو سیاسی، علمی، معاشی اور فقہی طور پر اپنی بساط کے مطابق جماعت اہل حدیث نے پورا کیا اور ان شاءاللہ کرتے رہیں گے۔ ور عہد یست باجاناں کہ تاجان ور بدن دارم ہواخواہان کویش راچو جان خویشتن دارم ارباب دیوبند کی اس مصلحت اندیشی کا یہ اثر ہو رہا ہے کہ ان میں توحید کے داعی حضرات کو خارجی کا خطاب دیا جا رہا ہے اور عوام کو مطمئن کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ دیوبندی نہیں ہیں۔ اس انتقامی 
Flag Counter