یہ اندازِ فکر تقریباً آٹھویں صدی تک چلتا رہا۔ یونانی فلسفہ سے ائمہ حدیث نے خم ٹھونک کر مقابلہ کیا۔ اس دور کی فرقہ پرستی کے لئے ابن حزم کی الفصل اور شہرستانی کی الملل والنحل، علامہ ابو طاہر عبد القادر بغدادی (429ھ) کی الفرق بین الفرق، المواعظ والاعتبار للمقریزی ص 141 تا 186 ملاحظہ فرمائیے۔ اسلام میں بدعی فرقون کی کس قدر گرم بازاری رہی۔ آٹھویں صدی میں معلوم ہوتا ہے۔ علمائے سنت نے یونانی فلسفہ کو فاش شکست دے دی۔ یونانی نظریات کا تارپود بکھیر کر رکھ دیا۔ علمائے حدیث نے انہی کی زبان میں ان سے گفتگو کرکے انہیں یقین دلایا کہ وہ غلطی پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق ان کی معلومات سطحی ہیں۔ اور اسلامی عقائد پر ان کے اعتراضات کی حیثیت تلبیس نفس سے زیادہ نہیں۔ حضراتِ متکلمین عقائد کی اس دیرپا اور صبر آزما جنگ میں کچھ لوگ مخالفت کے باوجود فلاسفہ سے متاثر ہوئے۔ بعض نصوص میں انہوں نے تاویل کی، اسلامی نصوص کے لئے ایسے محامل تلاش کئے جو مسلک تفویض سے مختلف اور جدا تھے۔ لیکن ائمہ سلف اور ائمہ اربعہ کا تقریباً اجتماعی عقیدہ تفویض تھا۔ احناف نے عموماً عقائد اور منصور محمد بن محمد ماتریدی کی راہ اختیار کی۔ شوافع کا زیادہ رجحان اشعریت کی طرف ہوگیا۔ ائمہ حدیث اور حنابلہ اپنی پرانی راہ پر قائم رہے۔ تاویل سے بچ کر انہوں نے امام احمد اور باقی ائمہ حدیث کی روش کو نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا بلکہ اس سادگی کو قائم رکھا جس کا دوسرا نام تفویض تھا۔ اور عقائد میں ائمہ اربعہ متفق ہیں۔ تقلید کی تین راہیں یہ عجیب اتفاق ہے کہ چوتھی صدی کے قریب فقہی فروع میں تلفیق اور اتباع ہوا سے بچنے کے لئے اس دور کے عقلاء نے ائمہ اربعہ کی تقلید اختیار کر لی۔ اجتہاد کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ صحابہ وتابعین کے زمانہ میں جس قدر وسعت تھی تقلید شخصی اور ذہنی جمود سے اسے روک دیا گیا۔ لوگوں کو خواہ مخواہ مجبور کیا گیا کہ وہ چار ائمہ سے کسی نہ کسی کی تقلید ضرور کریں۔ گو یہ شرعاً واجب نہیں مگر ضرورتاً اسے کالواجب سمجھنا چاہئے۔ تھوڑی دور آگے بڑھ کر عقائد کے اختلافات میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کی |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |