Maktaba Wahhabi

106 - 236
آج بھی سندھ میں شیخ بدیع الدین اور ان کا خاندان، ایک عظیم الشان مکتبہ جس میں حدیث اور رجال کا بے نظیر ذخیرہ موجود ہے قرونِ ماضیہ کی یاد کو تازہ کر رہا ہے۔ اس وقت گو سندھ میں اہل توحید کو وہ قوت حاصل نہیں۔ لیکن تاریخ کے اوراق ان کی خدمات کو نہیں بھول سکتے۔ اسی طرح مغل فاتحین بھی اسلامی سادگی اور دین فطرت کی روشنی سے زیادہ فارسی تہذیب سے آشنا تھے اس لئے ہندوستان میں اسلامی سادگی اور کتاب وسنت کی تعلیمات کا زور زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور نہ ہی خدام حدیث کی اس قدر کثرت ہو سکی، جس قدر بعض دوسرے ممالک میں تھی۔ شیخ علی المتقی صاحب کنز العمال اور شیخ محمد طاہر مؤلف مجمع البحار، شیخ مجدد احمد سرہندی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی﷭ اس وقت مغتنمات میں سے تھے۔ اکبری فتنوں کے سامنے کوئی طوطی کی آواز کو سنے یا سنے مگر طوطی نے اپنا فرض ادا کرنے میں کمی نہیں کی۔ اس وقت اہل حق کس قدر کمزور تھے۔ شیطانی طاقتیں کس قدر جمع ہو رہی تھی۔ فتنوں کا سیلاب کتنا تناہی خیز تھا۔ حکومت کا لادینی جذبہ اہل حق کے لئے کتنی مصیبت کا باعث تھا۔ اعراس اور موالید کو بعض لوگوں نے اسلام کا بنیادی مسئلہ سمجھ رکھا تھا۔ تاہم ان بزرگوں نے ان بدعات پر کڑی نکتہ چینی کی۔ غیر اسلامی رسوم اور غیر اسلامی نظریوں کے خلاف ان مجددینِ وقت کی پُر شکوہ آواز فضا میں گونجتی رہی۔ رضي الله عنهم وأرضاهم بدعی استیلاء اس ناخوشگوار ماحول نے اکبر ایسے ملحد انسان پیدا کرکے اہل حق کے لئے فضا کو اور بھی مکدّر کر دیا۔ ملّا مبارک کا خانوادہ اسی ظلمت کدہ میں ظلمات بعضہا فوق بعض کا حکم رکھتا ہے۔ یہ ایک بدعی ابتلاء تھا۔ جس کے لئے ایک تیز سہل کی ضرورت تھی جس کا نضج تو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے کیا۔ اور آخری تدبیرکار کے لئے کارکنان قضاء وقدر نے صاحب سیف وقلم حضرت مولانا اسمٰعیل شہیدرحمۃ اللہ علیہ کو منتخب فرمایا جن کی مساعی نے مریض کو موت وحیات کی کشمکش سے نکال کر صحت کے آثار نمایاں فرما دئیے۔ اس  جماعت کے سامنے سب سے اہم اور پہلا مقصد یہ تھا کہ وہ ہندوستان میں ایک دینی حکومت قائم کرے جس کے ارباب اقتدار صحابہ کرام کی سیرت رکھتے
Flag Counter