موت اور شادی کے مواقع پر ہنود سے رسوم اور بدعات مستعار لے لی گئیں۔ حکومتوں کے ایوانوں سے لے کر غریب کی جھونپڑیوں تک یہ اندھیرا چھا گیا۔ علماء کا کام بھی محض حیل کی تلاش رہ گیا۔ اور شرعی احکام کو ٹالنا فقہ کی انتہاء قرار پاگئی۔ آخری دینی کوشش فتاویٰ عالمگیری کی تدوین ہے۔ وہ بھی آخر یہی کہ مخصوص آراء کو جمع کر دیا گیا۔ اور حکومت کی سرپرستی سے اسے اعتماد کی صورت حاصل ہوگئی۔ حافظ ذہبی کی زبان سے اپنے وقت اور اپنے ماحول کے جمود اور تقلید معین کا شکوہ آپ سن چکے حافظ ذہبی کا انتقال 748ھ میں ہوا۔ اسی دور کے متعلق حافظ ذہبی نے شکایت فرمائی ہے کہ لوگ تحقیق کی بجائے تقلید کی طرف زیادہ فائل ہیں۔ اپنی تحقیق اور اپنے علم پر اعتماد کی بجائے دوسروں کے فہم پر اعتماد اور دوسرے کے سہارے پر زندہ رہنا پسند کرتے ہیں اور حقیقت یہی ہے اگر دماغی قویٰ اور قوت فکر اور شعور کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ اپنا عمل چھوڑ دے گی اور معطل ہو کر رہ جائے گی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ائمہ سلف کے بعد علم اور تفقہ بتدریج کم ہو رہا ہے۔ کتابت اور تذکروں نے حافظوں کو کافی حد تک کمزور کر دیا ہے۔ محدثین کے حافظوں کا ذکر کیا جائے تو لوگ اسے افسانہ سمجھتے ہیں۔ فقہاء کی دور اندیشیوں اور نکتہ زائیوں کا تذکرہ آجائے تو خواص امت تک حیرت میں کھو جاتے ہیں۔ یہ ساری مصیبت جمود نے پیدا کی۔ بڑے بڑے ہوشمند اہل علم احساس کہتری میں مبتلا نظر آئیں گے۔ اس عمومی ابتلاء کے باوجود جمود بتدریج اذہان پر چھا گیا ہے زمانہ میں ایسے بزرگ بھی ملیں گے جو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں اپنی سمجھ سے سوچتے ہیں، منقولات کے فہم میں انہیں اپنے علم اور اپنی فراست پر بجا طور پر اعتماد ہے اور کسی کی تقلید کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ تذکرۃ الحفاظ حافظ ذہبی نے فن رجال میں دو اہم کتابیں لکھی ہیں: میزان الاعتدال اور تذکرۃ الحفاظ۔ میزان میں تو عموماً ضعیف اور مجروح رواۃ کا تذکرۃ فرمایا ہے۔ تذکرۃ الحفاظ کی چار جلدیں ہیں، جن میں حفاظ کا تذکرۃ فرمایا گیا ہے۔ ان کے اکیس طبقات ہیں۔ پہلی اور دوسری جلد میں دس طبقات کا ذکر ہے۔ تیسری اور |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |