ان کے رجحانات کا یہ حال ہے کہ سفر السعادۃ ایسی محققانہ اور محدثانہ کتاب کی شرح لکھی اور اسے جمود سے ہم آہنگ کرکرنے کی بھرپور کوشش فرمائی۔ جہاں اتنے بڑے اکابر محدثین کا یہ حال ہو۔ وہاں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تجدید مساعی اور ابن القیم کے تنقیدی کاموں کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ بحوالہ حافظ سخاوی لفظ شیخ الاسلام کے غلط استعمال کا شکوہ فرماتے ہیں اور اس کی تائید کرتے لکھتے ہیں: ثم اشتهر بها جماعة من علماء السلف حتى ابتذلت على رأس المائة الثامنة فوصف بها من لا يحصى وصارت لقب المن ولي القضاء الأكبر ولو عري عن العلم والسنن فإنا لله وإنا إليه راجعون انتهى كلام السخاوي قلت ثم صارت الآن لقبا لمن تولى منصب الفتوى وإن عري عن لباس العلم والتقوى. اھ (الفوائد البھیہ ص101) ’’شیخین (حضرت ابو بکر اور حضرت عمر) کے بعد سلف سے ایک جماعت کے لئے یہ لقب مشہور ہوا۔ پھر آٹھویں صدی میں یہ لقب ایسا عام ہوا کہ جسے قضاء کبریٰ کا عقدہ ملا وہ شیخ الاسلام کے لقب سے مشہور ہوگیا۔ اور بے شمار شیخ الاسلام ہوگئے۔ اگرچہ علم اور عمر کے لفظ سے وہ کچھ بھی اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، مولانا عبد الحی فرماتے ہیں: پھر یہ لقب ان لوگوں کیلئے مخصوص ہوگیا جو منصبِ افتاء پر کسی طرح قابض ہوگئے گو وہ علم اور تقویٰ سے قطعاً تہی داست ہوں. اھ‘‘ اور آخر تیرھویں صدی تک علم کے دروس وانحطاط کا حال ظاہر ہے۔ علم وتقویٰ کی بجائے القاب پر زور ہیں۔ جس قدر علم کم ہوگا اسی قدر جمود بڑھے گا۔ لوگ دوسروں کا سہارا لینے کی کوشش کریں گے۔ ضرورت کے لحاظ سے اسے کوئی واجب کہے یا مباح، لیکن ہے تو ایک لا علمی کا کرشمہ۔ اس لئے اس دور میں سارا زور القاب پر آگیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصلاحی کوششوں کے بعد اعتقادی بدعات کی جگہ عملی بدعام نے لی۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |