Maktaba Wahhabi

36 - 236
اسے مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں اس لئے فرض صرف قرآن ہوگا اور احادیث کی وضاحت قابل قبول نہ ہوگی۔ لیکن یہ پابندی قائم نہ رہ سکی [فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ](المزمل:20)میں قراءت کی مقدار کا تعین بھی بقدر ایک آیت یا تین آیت قیاسی سے کیا گیا۔ پھر فاقرءوا میں امام مقتدی منفرد سب شامل تھے۔ اسی سے مقتدی کو حدیث من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة (دار قطني) اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا حالانکہ یہ حدیث بھی باتفاق ائمہ ضعیف ہے۔ اس کا کوئی طریق صحیح نہیں ثابت ہوسکا۔ اگر قراءت کے حکم سے مقتدی مستثنیٰ ہو سکتا ہے تو فاتحہ کا تعین بھی ہو سکتا تھا۔ اگر حدیث اپنے مسلک کی مؤید ہو تو اس سے قرآن کے مفہوم کی تعیین ہو سکتی ہے اگر وہ کسی دوسرے مسلک کے لئے مفید ہو تو اس سے قرآن عزیز کے احترام کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ طریق درست نہیں۔ ایک اور مثال فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ (البقرہ: 230) تیسری طلاق کے بعد عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوسکتی حب تک کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے۔ آیت میں تنكح کا فاعل ضمیر مؤنث ہے جو عورت سے تعبیر ہے گویا نکاح ثانی کی ذمہ داری بلحاظ فاعل عورت پر رکھی گئی ہے جب تک وہ دوسرا نکاح نہ کرے۔ تین طلقات کے بعد وہ پہلے خاوند کی طرف رجوع نہیں کر سکتی۔ فقہاء حنفیہ رحمتہ اللہ علیہم نے اسے خاص سمجھ کر اس سے حصر کا فائدہ اٹھایا ہے وہ فرماتے ہیں عورت نکاح کے معاملہ میں مختار ہے اسے ولی کی ضرورت نہیں۔ بالغہ ہونے کی صورت میں وہ جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے ولی اسے پابند نہیں کر سکتا اور حدیث أيما امرأة نكحكت بغير إذن وليها فنكاحها باطل باطل باطل (ترمذي ج2 ص175) جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے۔
Flag Counter