Maktaba Wahhabi

78 - 236
بينه علي وابن عمر وعبادة بن الصامت (حجة الله ج2 ص13) ابن عمر اور عبادہ بن صامت سے یہی منقول ہے۔ قنوت فقہاء احناف قنوت کو وتروں میں واجب سمجھتے ہیں اور شوافع صبح کی نماز میں۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں: واختلف الأحاديث ومذاهب الصحابة والتابعين في قنوت الصبح وعندي أن القنوت وتركه سيان ومن لم يقنت إلا عند حادثة عظيمة أو كليمات يسيرة إخفاء قبل الركوع أحب إلى لأن الأحاديث شاهدة على أن الدعاء على رعل وذكوان كان أولا ثم ترك وهذا إن لم يدل على نسخ مطلق القنوت لكنها تومي إلى أن القنوت ليس سنة مستقرة. اھ (حجۃ اللہ ج2 ص9) صبح کی قنوت کے متعلق احادیث میں اور صحابہ اور تابعین کے مذاہب مختلف ہیں۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں: قنوت پڑھنا، نہ پڑھنا دونوں برابر ہیں۔ اور اہم حوادث پر چند کلمات پڑھنا مجھے زیادہ پسند ہے کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ قبیلہ رعل و ذکوان پر بددعا ترک کر دی گئی۔ اس سے گو علی الاطلاق قنوت کا ترک ثابت نہیں ہوتا، لیکن اس سے یہ واضح ہے کہ یہ مستقل اور دائمی سنت نہیں۔ جمع بین الصلاتین عذر کی وجہ سے نماز جمع کرنے کے متعلق ائمہ میں اختلاف ہے۔ فقہائے احناف نہ جمع تقدیم کے قائل ہیں نہ جمع تاخیر کے اور جمع صوری دراصل جمع ہی نہیں بلکہ جمع کی صورت ہے۔
Flag Counter