حکومت اور اقتدار کے نشہ میں اہل حدیث کا ذکر کم ہوتا گیا ور نفرت بڑھتی گئی۔ تیسری صدی تک تو پورے فارس پر مسلک اہل کا اقتدار تھا۔ مصنفین صحاح اور علم حدیث کے مدوّن زیادہ تر اسی علاقہ کے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہی حضرات کو توفیق بخشی کہ علوم کو آئندہ آنے والے لوگوں تک پہنچائیں اور انہوں نے یہ فرض ادا فرمایا فجزاهم عن المسلمين أحسن الجزاء ان حضرات کی علوم پر نظر کا یہ حال تھا کہ تجوید میں بھی ان کی رائے کا تذکرہ ایک مکتب فکر کے لحاظ سے ہوا ہے۔ ائمہ قراءت میں اختلاف ہے کہ آیت وما يعلم تأويله إلا الله پر وقت ہے یا نہیں۔ تجوید اور قراءت کے متعلق مستند کتاب النشر فی القراءات العشر للعلامہ محمد بن محمد الدمشقی 833ھ میں فرماتے ہیں کہ الا اللہ پر وقف تام ہے وهو مذهب أبي حنيفة وأكثر أهل الحديث (ج1 ص227) قدماء اہل حدیث ان تمام راہوں سے آگاہ تھے جن پر فقہائے متاخرین کو ناز ہے۔ فقہ اور اہلحدیث بچپن میں سنتے تھے کہ اہل حدیث کی مثال عطار کی ہے اور فقہاء کی مثال طبیب ہے۔ اس کا اثر ذہن پر یہ ہوتا کہ شائد یہ دو گروہ ہیں۔ فقہاء عطاری نہیں کرتے اور اہل حدیث حدیث کے طبیب نہیں ہوتے۔ لیکن جب علوم حدیث اور دفاتر سنت دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ یہ دو فرقے نہیں بلکہ عملی زندگی میں طبعی رجحانات کے مطابق ایک خاص طریق ہے جسے پسند کر لیا گیا۔ نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ محدثین فقہ نہیں جانتے۔ یہ یہ درست ہے کہ فقہاء حدیث نہیں جانتے۔ قدرت نے سب کو استعداد عطا فرمائی ہے جس کام کے لئے کسی نے اس استعداد کو استعمال کیا وہ چیز اسے عطا کر دی گئی۔ ائمہ حدیث کے حالات جب ہم پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقۂ درس میں موجود تھے۔ حدیث کی کتابت اور حفظ وضبط اور اس میں تفقہ کا مشغلہ اس وقت موجود تھا۔ صحابہ حدیث کا دور اور حفظ اسی طرح فرماتے تھے جس طرح حفاظ قرآن کرتے ہیں۔ ہفم کے لئے بھی اسی طرح محنت کرتے تھے لیکن اس وقت اس کی شکل تذکرے اور نوٹ کی تھی۔ کتاب کی طرح مدون نہ تھی۔ صحابہ اس کے غوامض کو سمجھتے تھے لیکن مروجہ کتب فقہ یا شروح حدیث کی طرح لکھنے |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |