Maktaba Wahhabi

41 - 236
فقہاء حدیث ان ظاہری تبدیلیوں کے باوجود سارق کے مالکانہ حقوق کو نہ تسلیم فرماتے ہیں نہ اسے مزید تصرفات کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس مال میں گو بظاہر تبدیلی  آگئی ہے لیکن چور بدستور چور ہے۔ جب تک وصف موضوع معلوم اور ثابت ہے تاویلات اور مفاد پر چور کو مالک نہیں کر سکتے۔ نص وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا (المائدہ:38) کا مقصدیہ ہے کہ جب تک سارق سارق ہے مال مسروق ہے اس کی خرید و فروخت جس طرح اس کی اصل صورت میں ممنوع ہے اسی طرح تبدیل شدہ صورت میں بھی اس میں تصرف شرعاََ درست نہیں بشرطیکہ سرقہ کا علم ہو۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ فقہاء عراق کے پاس اپنے مسلک کی حمایت کےلئے کوئی دلیل نہیں انہوں نے ان مسائل کو درست ثابت کرنے کے لئے برے دلائل اور نظرو فکر کی گہرائیوں سے کام لیا ہے لیکن محدثین کا انداز فکر چونکہ بالکل مختلف ہے اس لئے وہ ان نکتہ نوازیوں پر مطمئن نہیں ہو سکے۔ وہ بدستور ان مسائل کو ظاہر سنت کے خلاف سمجھتے رہے ۔ ان نکتہ آفرینیوں کو رائے سے تعبیر کرتے رہے اور اہل الرائے کے دلائل حدیث و سنت کے مقابلہ میں ان کی تسلی نہ کر سکے۔ فقہاء نے اپنے اصول کی حمایت کے لئے احادیث کو نظر انداز کر دیا اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ضعاف اور موقوفات کو قبول کر لیا۔ فقہ الحدیث کے اصول حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ حدیث  کی فقہ یا فقہ الحدیث کے بنیادی اصول مندرجہ ذیل ذکر فرمائے ہیں۔ 1۔ جب قرآن میں کوئی حکم صراحۃََ موجود ہو تو اہل حدیث کے نزدیک کسی دوسری چیز کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں 2۔ اگر قرآن کسی حکم کے متعلق بالکل ہی خاموش ہو تو عمل سنت پر ہو گا وہ سنت فقہاء میں متعارف اور معلوم ہو یا کسی شہر کے ساتھ مخصوص یا کوئی خاص خاندان اسے روایت کرے کسی نے اس پر عمل کیا ہویا نہ کیا ہو۔ ائمہ حدیث اسے قابل استناد سمجھیں گے۔
Flag Counter