Maktaba Wahhabi

60 - 236
چوتھی میں گیارہ طبقات مرقوم ہیں۔ کل اکیس طبقات ہوئے۔ اور ان میں تقریباً گیارہ سو انیس ائمہ کا ذکر فرمایا ہے۔بعض ائمہ کا ذکر ضمناً آیا ہے۔ اور بعض کا تذکرۃً ذکر فرمایا ہے۔ اس تعداد کے علاوہ حافظ ذہبی نے التزام سے تو نہیں فرمایا کہ ہر آدمی کے ساتھ اس کے مسلک کا ذکر کریں گے لیکن چونکہ ائمہ حدیث کے تذکرہ میں یہ کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ اس لئے وہ تذکرۃً کہیں ذکر فرما جاتے ہیں کہ فلاں بزرگ تقلید نہیں کرتے تھے۔ فلاں بزرگ اہل الرائے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ فلاں بزرگ نے اپنے علاقہ میں اہل اثر کے مذہب کو رواج دیا۔ تذکرۃ الحفاظ پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی کے زمانہ (748ھ) تک ایسے لوگ موجود تھے جو شخصی تقلید اور جمود سے پرہیز کرتے تھے۔ کتاب اور سنت کو براہِ راست سلف امت، صحابہ اور تابعین کی طرح سمجھنے اور سوچنے کی کوشش فرماتے تھے۔ تقلید اور جمود کی تنگ دامانیوں سے وہ اپنا دامن بچائے رکھتے تھے اور ایسے لوگ ہر زمانے میں کافی تھے۔ اور پھر یہ لوگ بہت ہی اچھی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ایک مختصر سی فہرست بقید سنین ذکر کی جاتی ہے۔ یہ فہرست تذکرۃ الحفاظ اور البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع للشوکانی اور التاج المکلل للنواب صدیق حسن خان سے منقول ہے۔ اس سے دو چیزوں کی وضاحت مقصود ہے۔ اول یہ کہ یہ نظریہ نیا نہیں بڑے فحول اور اکابر اہل علم نے تقلید سے پرہیز اور ائمہ سلف کی راہ کو پسند فرمایا ہے۔ دوسرے یہ کہ تقلید شخصی پر کبھی اجماع نہیں ہوا۔ بلکہ ہر دور میں اہل علم، تحقیق وتفحص کے طلبگار رہے۔ اس مسلک کے لئے ’وہابیت‘ کا عنوان بہت بڑا جھوٹ ہے۔ وہابیوں کا مرکزی مقام نجد اور حجاز ہے لیکن وہ لوگ اکثر حنبلی ہیں۔ خال خال ان میں سلفی بھی ہیں۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جن حضران نے فن حدیث کی تحصیل ہندوستان سے کی یا پھر حافظ شوکانی اور علامہ حیات سندھی سے علم حدیث کا استفادہ فرمایا۔ گویا وہابیوں کو بھی سلفیت یا ہندوستان سے ملی یا یمن اور حجاز سے۔ تعجب ہے آج کل کے بعض اکابر علماء دیوبند بھی اس لقب کے استعمال میں غلط بیان سے نہیں ڈرتے۔ بریلوی انہیں وہابی کہتے ہیں وہ اس کا انتقام اہل حدیث سے لیتے ہیں۔
Flag Counter