ولكن اليقين الذي يعقبه في قلوب الناس كما نبهنا على ذلك في بيان حال الصحابة. (حجة الله ج1 ص119) اصل چیز عدد روات نہیں بلکہ اصل چیز یقین اور اطمینان ہے۔ اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ اہل حدیث محض فن کے حفاظ کا نام نہیں بلکہ ان کے نزدیک فہم واستدلال کے لئے کچھ اصول ہیں جو کتاب وسنت ہی سے ماخوذ ہیں وہ تقلیدی نہیں بلکہ ان میں یقین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ پھر ج1 ص129 میں فرماتے ہیں: ’’میں نے سنا ہے کہ گروہ صرف دو ہیں۔ اہل ظاہر اور اہل الرائے، تیسرا کوئی گروہ نہیں ہے جو بھی قیاس کرے اور استنباط کرے وہ اہل الرائے ہے۔ یہ قطعاً غلط ہے۔ اور رائے سے مراد عقل اور فہم نہیں کیونکہ اس کے سوا تو اہل علم کے لئے کوئی چارہ ہی نہیں اور نہ ہی اس سے وہ رائے مراد ہے جس کا کتاب وسنت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یہ تو کوئی مسلمان پسند ہی نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی رائے استنباط اور قیاس پر قدرت کا نام ہے۔ کیونکہ امام احمد، اسحاق بلکہ امام شافعی قیاس اور استنباط فرماتے ہیں لیکن وہ بالاتفاق اہل الرائے نہیں ہیں۔ بلکہ اہل الرائے سے مراد وہ حضرات ہیں جو اجماعی اور جمہور ائمہ میں متفقہ مسائل کے علاوہ متقدمین سے کسی متعین بزرگ کے اصولوں پر استنباط اور تخریج فرماتے ہیں اور نظائر کو نظائر پر محمول فرماتے ہیں اور معینہ اصولوں کی طرف رجوع فرماتے ہیں اور اس کے لئے احادیث اور آثار دونوں کو حجت نہیں سمجھتے اور محققین اہل سنت، اہل الرائے اور اہل ظاہر کے بین بین ہیں۔‘‘ شاہ صاحب کے اس ارشاد سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں: 1. اہل حدیث صرف اہل فن نہیں بلکہ ایک مکتب فکر ہے۔ 2. فقہائے کوفہ کے علاوہ باقی ائمہ اجتہاد اہل حدیث ہی سے تعلق رکھتے ہیں ان کے اتباع اور مقلدین گو اہل حدیث نہ کہلا سکیں۔ 3. اہل حدیث قیاس جلی اور نظائر کے حکم کو مانتے ہیں اور اجتہاد اور استنباط کے قائل ہیں۔ 4. اہل حدیث اور اہل ظاہر دو مختلف فکر ہیں اور اہل الرائے ان دونوں سے الگ ہیں۔ |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |