Maktaba Wahhabi

217 - 346
اہلِ حدیث نہیں پہنچ سکے۔ان کی یہ تاخیر شکست کے مترادف ہے۔بات کسی حد تک درست تھی۔مگر فوری طور پر مولانا گکھڑوی کھڑے ہوئے اور کہا کہ مولوی محمد عمر اشتہار دیجیے۔انھوں نے مناظرے کا اشتہار بھجوایا۔اشتہار میں تاریخ اور وقت تو لکھا تھا مگر یہ نہیں لکھا تھا کہ صبح کے نو بجے یا رات کے نو بجے مناظرہ ہو گا، چنانچہ مولانا گکھڑوی نے مولانا محمد عمرسے کہا کہ جلسے اور مناظرے اکثر رات کو ہوتے ہیں، ہم بروقت پہنچ گئے ہیں، یہ سمجھ کر کہ پروگرام رات کا ہے۔اگر آپ کے مطابق دن کے 9بجے کا وقت ہے توبتائیے دن کے 9بجے کا وقت اشتہار میں کہاں لکھا ہے؟ مولانا کا یہ جواب سن کر مولوی محمد عمر لاجواب ہوگئے۔ تقسیمِ ملک کے بعد 1949ء کے آخر میں مولانا گکھڑوی فیصل آباد(اس دور کے لائل پور)تشریف لائے۔قبل ازیں وہ وزیر آباد میں حافظ عبدالمنان کی مسجد میں خطیب تھے۔منتظمین نے مولانا کو فارغ کر کے مولانا محمد عبداللہ مظفر گڑھی کو خطیب مقرر کر لیا جو اچھے مقرر اور خوش الحان واعظ تھے۔شاید وہاں کے لوگوں کو مولانا احمد الدین میں گانے کے انداز سے خالی سادہ تقریر متاثر نہ کرتی ہوگی۔ پاکستان بن جانے کے بعد جامع اہلِ حدیث امین پور بازار کے پہلے خطیب ہمارے استاذ مولانا محمد عبداللہ ویرو والوی تھے۔مولانا عبداللہ صاحب عالی قدر مدرس تو تھے مگر ان کی خطابت سے لوگ مطمئن نہ تھے، جب کہ اس وقت جھنگ بازار میں مولانا سردار احمد بریلوی کا بڑا زور تھا اور شہر ومضافات میں بدعات پر مبنی مسائل پھیل رہے تھے۔ایسے حالات میں میرے والد مرحوم نے جو انجمن اہلِ حدیث کے رکن بھی تھے، یہ بات انجمن کے اجلاس میں رکھی کہ مولانا احمد دین گکھڑوی کو لایا جائے۔چنانچہ انجمن کے فیصلے پر والد صاحب وزیر آباد گئے اور مولانا کو لے آئے۔
Flag Counter