Maktaba Wahhabi

101 - 132
ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کا سورہ الفرقان کی قراء ۃ میں اختلاف ذاتی خواہش پر مبنینہیں تھا۔اگر ایسا ہو تا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ان کے اختلاف قراء ۃ کی یہ کہہ کر تصدیق نہ کرتے کہ ’’ھکذا أقرأنی جبریل ‘‘ جبریل امین علیہ السلام نے مجھے ایسے ہی پڑھایا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ کے مطابق پڑھایا تھا اورایک مرتبہ ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی قراء ۃ کے مطابق پڑھایاتھا۔‘‘ [1] امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بے شمار علماء نے اس حقیقت کی صراحت کی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود ، ابی بن کعب اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی وہ حروف جو مصاحف عثماینہ کے خلاف ہیں ، درحقیقت منسوخ ہو گئے تھے: ’’أما من یقول بأن بعض الصحابہ،کإبن مسعود کان یجیز القراء ۃ المعنی فقد کذب علیہ إنما قال:نظرت القراء ات فوجدتہم متقاربین،فاقرؤوا کما علمتم’’جوشخص یہ کہتا ہے کہ بعض صحابہ،مثلا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قراء ۃ بالمعنی کی اجازت دیتے تھے ، اس نے ان پر جھوٹ باندھا، بلکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تو اس کے برعکس یہ فرمایا تھا میں نے قراء ات کو دیکھا ہے اور انہیں ایک دوسرے قریب پایا ہے ، تم ویسے ہی پڑھو ، جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے۔‘‘ [2] وہ اپنی کتاب ’’ المنجد المقرئین‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جہاں تک قراء ۃ بالمعنی کا تعلق ہے جو بطور قرآن نقل نہیں ہوئی ،اس کا تو قراءات شاذہ سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔اور قرآن کے کسی لفظ کو اپنی مرضی
Flag Counter