Maktaba Wahhabi

100 - 132
اعتبار کرتے تھے۔ لیکن فن قراء ۃ کے ماہرین علماء کا کہنا ہے کہ اس روایت سے قرآ ن کی عظمت مجروح ہو رہی ہے لہٰذا اگر یہ روایت صحیح ثابت ہو جائے تو ضروری ہے کہ اسے ایک لفظ کی دوسرے لفظ سے تفسیر پر محمول کیا جائے۔ اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ قرآن کے کسی لفظ کو بدلنا جائز ہے۔‘‘ [1] میں یہ کہتا ہوں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث اس حقیقت کا واضح ثبوت کہ سبعہ احرف میں متعدد وجوہ قراء ات کا منبع و سر چشمہ وحی الہی ہے جو ہمارے پیغمبر پر نازل ہوئی۔اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف کرنے والے دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا: ہکذا أنزلت’’ہاں اسی طرح نازل ہوا ہے۔‘‘ اور وہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے یہ کہہ رہے تھے کہ ’’أقرأنیہا رسول اللّٰہ ‘‘ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ہی پڑھایا ہے تو ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’فاقرئوا ما تیسر منہ‘‘ میں موجود قراء ات کی وسعت کی اصل بنیاد براہ راست سماع ہے، لہٰذا اپنی مرضی سے کسی لفظ کو مترادف الفاظ سے بدلنا قطعا جائز نہیں ہے۔ [2] اور امام قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’ فاقرء وا ما تیسر من القرآن ‘‘کا قطعا یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ اجازت تھی کہ اپنی مرضی سے جب چاہیں کسی لفظ کو دوسرے مترادف لفظ سے بدل دیں۔ اگر ایسا ہوتا قرآن کریم کا اعجاز یقینا ختم ہو کر رہ جاتا۔اور قرآن ہر کہ و مہ کے لئے بازیچہ اطفال بن جاتاکہ وہ جیسے چاہے اس میں تبدیلی کے لے۔ اور اس کے نتیجے میں قرآن کی جو شکل سامنے آتی ، وہ اس سے قطعی مختلف ہوتی جو اللہ أحکم الحاکمین کی طرف سے نازل ہوا تھا۔ لہٰذا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور
Flag Counter