Maktaba Wahhabi

112 - 132
توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں: پہلی توجیہ یہ ہے کہ ’’ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا۔ ‘‘ کے تذکرہ سے آپ کی مراد لغاتِ عرب کی سات وجوہ (لہجے )ہیں۔کیونکہ احرف یہ حرف کی جمع ِقلت ہے ،جیسے فلس کی جمع أفلس ہے اور رأس کی جمع أرؤس ہے۔اورحرف بعض دفعہ ’وجہ‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ فرمان الہی ہے: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَعْبُدُ اللّٰه عَلَی حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَہُ خَیْرٌ اطْمَأَنَّ بِہِ وَإِنْ أَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ انقَلَبَ عَلَی وَجْہِہِ﴾ ’’اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کنارے پر رہ کر بندگی کرتا ہے۔ اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور اگر کوئی مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیا۔‘‘یہاں حرف سے مراد وہ کنارہ اور طرف ہے جس پر کھڑا وہ بندگی کر رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف وجو ہ ِقراء ات اور اور متغایر لغات ِ عرب کو اس بناء پر حروف قرار دیا ہے کہ ان میں سے ہر قراء ۃ اور لہجہ دوسری قراء ۃ اور لہجے سے الگ طرز رکھتا ہے۔ اور احرف کے مفہوم میں دوسری توجیہ یہ ہے کہ قراء ات کو و سیع تر تناظر میں حروف کا نام دیا گیا ہے۔ جیسا کہ عربوں کا طریقہ ہے کہ و ہ کسی چیز کا نام اس میں شامل کسی چیز کے نام پر رکھ دیتے ہیں۔ ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بنیاد پر قراء ۃ کو حرف کے نام سے موسوم کیا ہے۔اگرچہ قراء ۃ کلام ِکثیر ہے ،کیونکہ اس میں کسی حرف کا ڈسپلن تبدیل کیا جاتا ہے ، کسی حرف کو دوسرے حرف سے بدل دیا جاتا ہے ، کسی میں امالہ ہے تو کہیں حذف واضافہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عربوں کے دستور کے مطابق قراء ۃ کو حرف سے تعبیر کیا ہے ،کیونکہ حرف بھی قراء ۃ کا ایک حصہ اور جز ہے۔ ‘‘ [1] امام ابن جزری رحمہ اللہ نے امام الدانی کی اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
Flag Counter