Maktaba Wahhabi

113 - 132
’’میرے خیال میں یہاں ان دونوں توجیہات کا احتمال موجود ہے ، مگر پہلی توجیہ کا احتمال زیادہ قوی ہے کہ سات حروف سے لغات ِعرب کی سات وجوہ مراد لی جائیں۔اور اگر زیر بحث حدیث میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول:سمعتہ یقرأسورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیہا’’ میں نے ہشام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ وہ سورۃ الفرقان کو ایسے حروف ،یعنی ایسی قراء ات پر تلاوت کر رہے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘ اسی طرح دوسری روایت میں ان کا قول:سمعتہ یقرأ فیہا أحرفا لم یکن نبی اللّٰه أقرأنیہا’’میں نے ہشام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ،وہ نماز میں ایسے حروف یعنی ایسی قراء ات کی تلاوت کر رہے تھے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔‘‘کے تناظر میں دیکھا جائے تو دوسری توجیہ کا احتمال زیادہ قوی نظر آتا ہے۔ [1] راقم کا موقف یہ ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں حروف کثیرۃ کے الفاظ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ ان کے درمیان سورۃ الفرقان کی تلاوت میں درحقیقت وجوہ ِقراء ات کا اختلاف تھا،کیونکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے الفاظ: علی حروف کثیرۃ قراء ات کی متعدد وجوہ کے معنی میں واضح ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ متقدمین کے اقوال میں بھی أحرف کے لئے قراء ات کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے: ’’من قرأ علی حرف فلا یتحوَّلَنَّ منہ إلی غیرہ۔ ‘‘ [2] ’’اگر کسی نے ایک حرف کے مطابق قرآن پڑھا ہے تو پھر وہ ہرگز کسی دوسرے حرف کی طرف منتقل نہ ہو۔‘‘ امام طبری رحمہ اللہ اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’واضح ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اپنے اس قول سے قطعاًیہ مطلب نہیں
Flag Counter