Maktaba Wahhabi

76 - 132
الشیخ عبد العزیر القاری لکھتے ہیں: ’’سات حروف کا نزول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد شروع ہوا۔ مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک مسلمان قرآن کریم کو ایک ہی طرح سے پڑھتے رہے اور قریش کے لہجے میں اس کی تلاوت کرتے رہے۔اور اس سلسلے میں انہیں کسی بھی قسم کی دشواری پیش نہیں آئی ، کیونکہ ان کی اکثریت قبیلہ قریش اور مکہ مکرمہ کے قرب و جوار سے تعلق رکھتی تھی۔وہ ایک ہی زبان و لہجے کے فرزند تھے۔لیکن نبیکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد معاملہ بدل گیا۔دیگر قبائل کے لوگ بھی اسلام میں داخل ہو لگے۔لوگوں کی زبانوں پر دشواری کے آثار نظر آنا شروع ہو چکے تھے۔ صورت حال اس وقت مزید واضح ہو گئی جب جزیرہ عرب کے کونے کونے سے مختلف قبائل ِعرب کے وفود آنا شروع ہوئے۔ٹھیک یہی وہ وقت تھا جب تالاب ِبنو غفاراور احجار المراء کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبریل امین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات حروف کی نوید سنائی گئی۔ ‘‘ [1] دوسری رائے:… اور بعض علمائے قراء ۃ کا موقف یہ ہے کہ سات حروف بھی نزول ِ قرآن کے آغاز کے ساتھ ہی نازل کر دیئے گئے تھے،(البتہ مکہ میں ان کو استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی) لیکن ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب ان کی فوری ضرورت پیش آئی ،تب اللہ کی طرف سے ان میں قراء ۃ کی اجازت مرحمت فرما دی گئی۔ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی یقینی طور پر کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی ، بلکہ اس میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے ، وہ ان کے استعمال کی اجازت کے بارے میں ہے۔اور اس لئے بھی کہ مکی سورتوں میں بھی اختلافی حروف تقریباً وہی ہیں جو مدنی سورتوں میں ہیں۔نیز عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ
Flag Counter