کی خوبصورت اور پر سکون روشنی ہر طرف پھیلتی ہے اور یہ میٹھے پانی کے چشمے جو بغیر کسی مشقت یا تکلیف کے زمین سے پھوٹتے ہیں اور نباتات کو سیراب کرتے چلے جاتے ہیں جس سے سبزیاں اور پھل تیار ہوتے ہیں۔ یہ سب کس نے پیدا کیے اور بنائے ہیں؟ اس ساری کائنات کا نظم و نسق کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ کونسی ذات ہے جس نے انسان کو بہترین قامت اور خوبصورت اعضاء کے ساتھ پیدا کیا؟ اور کس نے انسان کو کان، آنکھیں اور دل عطا کیا اور جو کچھ یہ نہیں جانتا تھا، اس کی تعلیم دی؟ یہ سب کچھ کرنے والی کون سی ذات ہے؟ کیا اس کائنات کو چلانے اور تمام امور کی تدبیر کرنے والے کعبے میں نصب بت ہیں جن کا وہ لوگ ہر سال حج کرتے، نذریں چڑھاتے، ان کے نام کے جانور ذبح کرتے اور ان بے جان اور سخت پتھروں کو برکت کے لیے چھوتے تھے؟ ان بتوں کا وصف یہ ہے کہ یہ بولتے ہیں نہ کلام کرتے ہیں، نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ یہ تو اتنی بھی طاقت نہیں رکھتے کہ کوئی ان پر زیادتی کرے تو اس کا ہاتھ روک سکیں، کوئی ان سے چھیڑ چھاڑ کرے تو بدلہ لے سکیں۔ محال ہے کہ اتنی بڑی کائنات ان بتوں نے بنائی ہو؟ یہی سوالات صرمہ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں بھی صبح و شام گردش کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ انھیں حق کی ہدایت مل گئی اور سچی روشنی نصیب ہوگئی۔ اس کے بعد صرمہ رضی اللہ عنہ کا لباس کھردرا ہوگیا، دنیا سے بے رغبتی اختیار کرلی، بتوں سے کنارہ کش ہوگئے اور پاکیزہ زندگی گزارنے لگے۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ ان کے بارے میں بتاتے ہیں: صرمہ رضی اللہ عنہ نے ظہورِ اسلام سے |