Maktaba Wahhabi

169 - 222
کچھ مدت تک دونوں فوجوں کے سفیر آتے جاتے رہے۔ پھر عرب اور فارسیوں کے مابین قادسیہ کے میدان میں فیصلہ کن معرکہ ہوا۔ اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ اپنی قوم کندہ میں کھڑے ہوکر کہنے لگے: اللہ بنو اسد کا بھلا کرے! تم یہ کیا کررہے ہو اور یہ کیا کہہ رہے ہو؟ یہ کہہ کر انھوں نے دشمن پر حملہ کیا تو کندہ کے لوگوں نے بھی ان کے ساتھ یکبارگی دشمن پر حملہ کردیا۔ اورسامنے والے دشمن مار بھگائے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شامل تھے جو جنگ یرموک کی فتح کے بعد خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تھے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انھیں دس ہزار درہم بطور انعام دیے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ خالد رضی اللہ عنہ کو معزول کرتے ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خالد رضی اللہ عنہ کے اس عطیے کا پتہ چلا تو انھوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو ان کی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا۔ لشکر کے نئے امیر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق خالد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے اشعث کو یہ عطیہ کہاں سے دیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: یہ عطیہ میں نے اپنے مال سے دیا ہے۔ اگرمسلمانوں کے مال میں سے دیا ہوتا تو یہ خیانت ہوتی۔ لشکر والوں کو بھی خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی کا علم ہوگیا تھا۔ ایک سپاہی کہنے لگا: آپ کو معزول کیوں کیا گیا ہے، آپ تو مسلمانوں کی نصرت و فتح کی نشانی سمجھے جاتے تھے۔ اس طرح مسلمانوں میں فتنہ پھیل جائے گا، لہٰذا اس کا سد باب ابھی سے کرنا چاہیے۔ آپ ہمیں حکم دیں ہم ابن خطاب کے خلاف مدینہ شہر کو پیادہ اور گھڑسواروں کی فوج سے بھردیں۔
Flag Counter