Maktaba Wahhabi

132 - 222
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رومیوں سے لڑائی کی تیاری کا حکم دیا۔ یہ وہ حالات تھے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاصے تنگ دست تھے۔ شدید گرمی کا موسم تھا اور قحط سالی بھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس سفر کے بارے میں اشارات کے بجائے واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ سفر انتہائی کٹھن ہے، لہٰذا خوب اچھی طرح تیاری کرلو۔ مالدار اور صاحب حیثیت صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کے راستے میں زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے اور سواریاں مہیا کرنے کی ترغیب دلائی۔ انھوں نے اللہ کے راستے میں خوب مال خرچ کیا۔ بہت سارے مالداروں نے دیگر افراد کو بھی ساتھ لے جانے کے لیے سواریاں پیش کیں اور اللہ سے اجر کی امید پر بڑی محنت اور لگن سے تیاری میں مصروف رہے۔ اس موقع پر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بہت بڑی رقم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں ڈالی۔ اتنی ساری رقم شاید ہی کسی نے خرچ کی ہو۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے اس ایثار کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ صادق و مصدوق سے عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں رضامندی کا سرٹیفیکیٹ جاری ہوتا ہے: ((اَللّٰہُمَّ! ارْضَ عَنْ عُثْمَانَ، فَإِنِّي عَنْہُ رَاضٍ)) ’’اے اللہ! تو میرے عثمان سے راضی ہوجا، میں بھی اس سے راضی ہوں۔‘‘ [1] اس موقع پر کچھ مسلمان روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کا تعلق انصار اور دیگر قبائل سے تھا اور یہ سات افراد تھے۔ یہ حاجت مند تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے جانور طلب کرنے آئے تھے تاکہ وہ بھی جنگ
Flag Counter