تبادلے کا تذکرہ ہے جس سے خالص بھائی چارے کا درس ملتا ہے اور ایمان کی روح گہرائی تک باغ باغ ہوجاتی ہے۔ ایک قائد اور اس کے متبع کی ایسی ہی عالی ظرفی اور اسی طرح کے بھائی چارے کی بدولت ایمانی معاشرہ قائم ہوتا اور نیکی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے عمدہ معاشرے کی مثال نہیں ملتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تربیت سے ایسا بہترین معاشرہ قائم ہوا کہ ضرورت پڑنے پر ایک جان نثار اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا ہے۔ جب اس سے پوچھا جاتا ہے: اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو تو جواب ملتا ہے، ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی محبت چھوڑ آیا ہوں۔ ایک اور فدا کار ایک لشکر کو، جو اللہ کے نام پر دین کی اشاعت کی خاطر جارہا ہے، الوداع کرنے نکلتا ہے تو اہل لشکر سے کہتا ہے: اللہ کے نام کی برکت سے چلتے جاؤ، میں تمھاری واپسی تک تمھارے بال بچوں کی عیال داری اور گھروں کی دیکھ بھال کروں گا۔ ایک تیسرا جانباز صحابی جس کے والد کے سر پر مدینہ کی سرداری کا تاج رکھا جانے والا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے اور اس کی تاج پوشی کا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی توہین پر اپنے سگے باپ کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا کہ جب تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دیں تو مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کے بڑے روشن اور اجلے کردار تاریخ میں محفوظ ہیں۔ اس منفرد و ممتاز معاشرے میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بھی کوئی اہم کارنامہ |