Maktaba Wahhabi

250 - 269
پانی پلانے کی ذمہ داری تھی۔ مؤرخین نے آپ کے اسلام لانے کی تاریخ کے متعلق اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ فتح خیبر سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے اور بعض نے کہا ہے کہ آپ غزوۂ بدر سے بہت پہلے اسلام قبول کر چکے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مشرکین کی خبریں لکھ کر ارسال کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد جو لوگ مکہ میں رہ گئے تھے وہ ظلم و ستم سے بچنے کے لیے انھی کے پاس پناہ لیتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بھی مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں لکھا کہ ابھی آپ کا مکہ ہی میں رہنا بہتر ہے۔[1] انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہجرت نہ کی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عباس رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ کیا انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر خاموشی اختیار کی تھی؟ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ جلدی اسلام لائے اور انھوں نے اس بات کا سردارانِ قریش کے سامنے بر ملا اعلان بھی کیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے لیے اسلام کا برملا اعلان کرنے میں کون سی چیز مانع تھی؟ رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا غلام تھا، ہمارے گھر میں اسلام داخل ہو چکا تھا، عباس اور ام الفضل رضی اللہ عنہا مسلمان ہو چکے تھے لیکن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کی مخالفت سے ڈرتے ہوئے اسلام کا برملا اظہار نہ کیا۔[2] اگر یہ بات سچ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے برملا اسلام کا اظہار کرنے کے بیچ خوف حائل
Flag Counter