Maktaba Wahhabi

251 - 269
ہو گیاتھا تو پھر آپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کعبہ کی طرف جانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں شریک ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں اور براء بن معرور نکلے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگوں سے پوچھ رہے تھے، اس وقت ہم آپ کو پہچانتے نہیں تھے، نہ ہم نے اس سے پہلے آپ کو دیکھا تھا۔ ہم مکہ کے ایک آدمی سے ملے، اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا کہ کیا تم انھیں پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا: کیا تم ان کے چچا عباس بن عبدالمطلب کو پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا: جی ہاں! ہم عباس کو پہچانتے تھے۔ وہ ہمیشہ ہمارے پاس بحیثیت تاجر آیا کرتے تھے۔ اس نے کہا: جب تم مسجد میں داخل ہو گے تو جو آدمی عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا نظر آئے گا وہی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)ہے۔ جب ہم مسجد میں داخل ہو ئے تو عباس رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے اور ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔[1] سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا جانا لگا رہتا تھا۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر تو آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام کا انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انصار کے حق میں سب سے پہلے آواز بلند کرنے والے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ انھوں نے کہا: اے خزرج کی جماعت! (اُس وقت قبیلہ اوس و خزرج کو خزرج کہہ کر ہی پکارا جاتا تھا) تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی ہے تو یہ بات یاد رکھو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قبیلے میں سب سے زیادہ عزت والے ہیں۔ ہم میں سے جس نے بھی ان کی دعوت کو نہیں مانا
Flag Counter