Maktaba Wahhabi

65 - 269
تھا۔ بال گھنگریالے تھے۔ کنپٹیوں کے بال سفید تھے۔ کم گو تھے، خاموش طبع تھے۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے تھے۔ دعوت اسلام سرِآغاز ہی سن چکے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو یہ سنتے تھے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر ان کا قرآن سنا جائے لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟ جبکہ سارے قریش ماسوائے ان کے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بچا رکھا تھا، جاسوسی کر رہے تھے، دار ارقم جانے والے رستے پر گھات لگائے بیٹھے تھے اور وہاں جانے والوں کو شدید تکلیف پہنچاتے تھے۔ ان تمام باتوں سے عمار رضی اللہ عنہ آگاہ تھے لیکن ان کے بس میں نہیں تھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رہ سکیں کیونکہ نور قرآن اور ایمان کی مٹھاس انھیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھینچے لیے جا رہی تھی۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں دارارقم کے دروازے پر سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے ملا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دارارقم میں موجود تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: ’’آپ یہاں کس مقصد کے لیے آئے ہیں؟‘‘ انھوں نے مجھ سے پوچھ لیا: ’’آپ کا کیا ارادہ ہے؟ ‘‘ میں نے کہا: ’’میرا ارادہ ہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں اور ان کا کلام سنوں۔‘‘ انھوں نے کہا: ’’میرا بھی یہی ارادہ ہے۔‘‘ چنانچہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسلام کی دعوت دی تو ہم مسلمان ہو گئے۔ ہم نے پورا دن وہاں گزارا، جب شام ہوئی تو ہم چھپتے چھپاتے وہاں سے نکل آئے۔ [1] سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں ایک مسجد بنا لی۔ اپنے گھر میں گھر والوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے کیونکہ وہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے۔ اس مسجد میں عمار رضی اللہ عنہ
Flag Counter