Maktaba Wahhabi

90 - 269
گیا۔ اب اسی کوفے کے قلعہ میں مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہا مختار کے سر کا انتظار کر رہے تھے، جہاں حسین رضی اللہ عنہ اور ابن زیاد کا سر لایا گیا تھا۔ ان کے دل میں ایک قلق بھی تھا اور خوف بھی۔ گویا شیطان نے ان حکومت خواہوں کی قمیص پہن رکھی تھی۔ حالات میں ابھی ٹھہراؤ نہیں آیا تھا کہ وہ اپنے سامنے اپنے دشمن کا سر دیکھ رہے تھے۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہا کا چہرہ کھل اٹھا اور وہ ایک لکڑی سے مختار ثقفی کے سر پر ضربیں لگانے لگے، پھر انھوں نے اپنے شہسواروں کو اپنے قریب کیا اور اپنے کاتب کو کہا کہ وہ ان کے بھائی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو مکہ کی طرف خوشخبری کا خط لکھ بھیجے۔ حالات ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے، ہوتے بھی کیسے۔ یہی تو وہ فتنہ تھا جس سے عمار رضی اللہ عنہ پناہ مانگا کرتے تھے۔ جس وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو بھائی کا خط موصول ہوا اس وقت ایک لشکر حجاج بن یوسف ثقفی کی سرکردگی میں کعبے کا گھیراؤ کر رہا تھا۔ کعبے کا محاصرہ کیا گیا، اس پر منجنیق کے ذریعے پتھراؤ کیا گیا اور کعبے کی عمارت کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ بیت اللہ کی دیواروں کے پتھر صحن میں گر گئے۔ اے شیطان کے پیرو! تمھارے ہاتھ شل ہو جائیں۔ بے شک ابرہہ اپنے ہاتھیوں کے ذریعے وہ کام نہیں کر سکا جو ان ظالموں نے کیا تھا۔ ان کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو چکے تھے۔ ان کے جسم میں رحم کی کوئی رگ نہیں پھڑکتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں سے ایمان چھین لیا تھا اب ان کے دل بھلائی کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتے تھے۔ اِدھر حجاج کے آدمی ابن زبیر کو قتل کر کے ان کا مثلہ کر چکے تھے اور اُدھر کوفہ میں اس قلعے کا محاصرہ کیا جا چکا تھا جس میں مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہا براجمان تھے۔ اسی قلعے
Flag Counter