Maktaba Wahhabi

139 - 243
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضرِ خدمت ہوئے۔ مسلمان اس بیہودہ کلام کو سنتے ہی جوش میں آ گئے اور ان کی طرف سے ’’ہتھیار اٹھاؤ‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل عام اور یہودیوں کے خلاف جنگ چھڑنے کا خوف محسوس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ انھوں نے کعب بن اشرف کے قتل کا مشورہ دیا، دل اس پر مطمئن ہو گئے، کلیجے کو ٹھنڈک پہنچی اور ایک بہت بڑے فتنے کے خلاف فیصلہ ہو گیا۔[1]اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا؟‘‘ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں، اے اللہ کے رسول! اسے میں قتل کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو اس پر قدرت رکھتا ہے تو کر گزر۔‘‘ [2] محمد بن مسلمہ کہتے ہیں کہ اس وقت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو میں نے فوراً مان لیا لیکن جب معاملے پر غور کیا تو محسوس ہوا کہ میں نے وعدہ کرنے میں جلدی کی ہے۔ بے شک ایسے کاموں کے لیے غور و فکر اور تأمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کعب بن اشرف ایسے مضبوط قلعے میں رہتا تھا جس کے پہرے دار بڑے جنگجو تھے اور وہ خود بھی بڑا مانا ہوا شہسوار تھا۔ ورنہ وہ کیسے جرأت کر سکتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے معاہدے کو توڑے اور قریش سے دوستی و تعاون کے نئے عہد و پیمان کرنے کی کوشش کرے۔ تین دن گزر گئے، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کچھ کھایا نہ پیا۔ ان کو اسی سوچ نے سخت غمگین کردیا کہ جتنی جلدی ہو سکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا وعدہ پورا ہوجائے، چاہے اس کے لیے اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی
Flag Counter