Maktaba Wahhabi

162 - 243
تھے تا کہ وہ ان سے راضی ہو جائیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ بت ان کی دعائیں قبول کرتے ہیں۔ وہ لوگ مال اور اولاد کی کثرت کی و جہ سے ’’خلف بن وہب‘‘ کی طرف بغور دیکھتے اور اس سے متأثر ہوتے تھے۔ ایسی فضا جس میں عقلیں خراب ہو چکی تھیں اور خرافات لوگوں کے دلوں پر چھا چکی تھیں۔ اسی میں امیہ بن خلف نے عیش و عشرت کی زندگی گزاری۔ یہ بھی دوسرے قریشیوں کے ساتھ ہر سال ہزاروں ایسے جاہلوں اور احمقوں کا انتظار کیا کرتا تھا جو جنگلوں اور صحراؤں کو طے کرکے بتوں کو راضی کرنے اور نذرانے دینے کے لیے آتے تھے۔ وہ لوگ اپنے ساتھ بہت سا غلہ اور مختلف پھل بھی لے کر آتے تھے تا کہ ان کے ذریعے بیت اللہ کے مجاوروں کی آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔ وہ انھیں خوش کرنے کے لیے غذائی اجناس ہدیے اور نذرانے کے طور پر پیش کرتے تھے۔ امیہ بن خلف کو ان بتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا کہ ان کے ذریعے سے بہت سا رزق آتا ہے، خیرات اور نذرانے بغیر کسی محنت اور مشقت کے ملتے ہیں۔ پس یہ بت کدہ تو مال و متاع کا خزانہ ہے جو کبھی کم نہیں ہو گا، اور یہ رزق آنے کی ایسی جگہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گی، لہٰذا اس کی حفاظت کرنا نہایت ضروری ہے چاہے اس کے لیے جان کی بازی ہی کیوں نہ لگانی پڑے۔ وقت اسی طرح گزرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ انسان بندوں کی بندگی سے آزاد ہو کر اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اور انسانی عقل، بتوں اور اوہام و خرافات کے طوقوں سے آزاد ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں توحید خالص اور روشن دین کی طرف دعوت دی اور
Flag Counter