Maktaba Wahhabi

206 - 243
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آنے میں دیر کردی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے، راستے میں ان کی کچھ لوگوں سے ملاقات ہوگئی تو ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا، انھوں نے بتایا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے کی جانب جاتے ہوئے دیکھاتھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ سے احوال دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ساری بات بتادی کہ یہودیوں نے دھوکہ کیا ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہود کے اس قبیلے کے خلاف تیاری کرکے ان پر حملے کا حکم دے دیا۔ ابن ہشام لکھتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم کو مدینے میں امیر مقرر کیا اور باقی تمام لوگوں کو ساتھ لے کر بنو نضیر کی جانب نکل پڑے اور ان کا گھیراؤ کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کے درخت کاٹنے اور انھیں آگ لگانے کا حکم دے دیا،وہ کہنے لگے: اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم !آپ تو فساد سے روکتے ہیں اور جو ایسا کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عیب لگاتے ہیں، اب یہ کھجوریں کاٹنا اور انھیں آگ لگانے کا کیا مطلب ہے؟[1] اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی: ﴿ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللّٰهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ﴾ ’’تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنھیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا۔یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے۔‘‘ [2]
Flag Counter