Maktaba Wahhabi

40 - 243
جاتا ہے جس کے اندر ہر قسم کی برائی پائی جاتی ہو۔ زیادہ الفاظ بولنے کے بجائے یہی لفظ بول دیا جاتا ہے۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’عُتُلّ ہر اس آدمی کو کہتے ہیں جو بہت زیادہ مال جمع کرنے والا اور اس میں بخل کرنے والا ہو۔‘‘ [1] ولید بن مغیرہ ’زنیم‘ تھا، یعنی وہ شخص جو کسی قوم میں شامل ہو جائے جبکہ وہ اس قوم کا فرد نہ ہو۔ یا وہ آدمی جس کا نسب کسی قوم میں گھٹیا شمار کیا جاتا ہو۔ اگر اس کے معنی واضح کیے جائیں تو اس شخص کو زنیم کہتے ہیں جو لوگوں میں کمینہ اور خبیث مشہور ہوچکا ہو اور بہت زیادہ شر پھیلانے والا ہو۔ [2] کیا اس قسم کے لوگ ختم ہو گئے ہیں اور انسانیت ہمیشہ کے لیے ان سے خلاصی پا چکی ہے؟ یا اس قسم کی صفات والے اب بھی ہمارے اندر موجود ہیں اور اسی طرح کا کردار ادا کر رہے ہیں جو ولید بن مغیرہ نے اسلام کے ابتدائی دور میں کیا تھا؟ یعنی دوسروں پر غلط الزام تراشی، جھوٹی تہمتیں لگانا اور لوگوں کے بارے میں ایسی باتیں کرنا جو ان کے اندر نہ پائی جاتی ہوں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان جیسے لوگوں کو سامنے لائیں اور انھیں معاشرے کے سامنے ننگا کریں جیسا کہ قرآن نے ولید بن مغیرہ کے ساتھ کیا۔ تو کیا ہم ایسا کرنے کو تیار ہیں؟؟
Flag Counter