Maktaba Wahhabi

96 - 243
زندگی شروع ہوگی اور دنیوی زندگی کے اعمال کا حساب کرکے جزا اور سزا دی جائے گی۔ جب دنیا کی زندگی کے وقتِ مقررہ میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوسکتی تو پھر اس بے ثبات زندگی سے چمٹے رہنا اور فنا ہو جانے والی نعمتوں کے پیچھے دوڑتے رہنے کا کیا فائدہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی بے ثباتی کی مثال بیان کر کے قریش کی عقلوں کو جھنجھوڑا مگر قریش کے بے و قوف سرداروں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ انھوں نے اپنی عقل کے دریچوں کو بند رکھا، وہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے رہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری پر اڑے رہے۔ وہ ایک مرتبہ پھر اکٹھے ہو کر ابو طالب کے پاس آ ئے اور کہنے لگے: ابو طالب! یہ قریش کا تنومند اور خوبصورت جوان عمارہ بن ولید لے لو، اسے اپنا بیٹا بنا لو اور اس کے عوض اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو ہمارے حوالے کر دو۔ اس نے ہمارے اور تمھارے بڑوں کے دین کی مخالفت کی ہے، تمھاری قوم میں تفرقہ ڈالا ہے اور وہ ہمیں بے وقوف بھی کہتا ہے۔ اسے ہمارے حوالے کر دو تاکہ ہم اسے قتل کر کے اپنے بزرگوں اور معبودوں کی بے عزتی کا بدلہ چکا سکیں۔ تمھیں آدمی کے بدلے آدمی مل جائے گا۔ ابو طالب نے جواب دیا: اللہ کی قسم! تم نے بہت برا سودا کیا ہے۔ تم مجھے اپنا بیٹا اس لیے دو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں اور میں تمھیں اپنا بیٹا اس لیے دے دوں کہ تم اسے قتل کر دو؟ اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس موقع پر مطعم بن عدی کہنے لگا: اللہ کی قسم! اے ابو طالب! تمھاری قوم نے تمھارے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا ہے اور تمھیں پریشانی سے نجات دلانے کی کوشش کی ہے۔ تم اپنی قوم سے کچھ تو قبول کرو، ان کا کوئی فیصلہ تو مانو!!
Flag Counter