Maktaba Wahhabi

79 - 108
سو برائی کی اضافت انسان کی طرف کرنا اصل میں اسے اس کے سبب کی طرف مضاف کرنے کی قسم میں سے ہے ، نہ کہ اس کے مقدر کی طرف مضاف کرنا ہے۔ جب کہ نیکی یا برائی کی اضافت / نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا ان کو ان کے مقدر بنانے والے کی طرف منسوب کرناہے ۔ اس طرح دونون آیات میں اختلاف کا وہم ان کے مقاصد جدا ہونے کی وجہ سے ختم ہوسکتا ہے۔ تیسری مثال کے متعلق کہتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکبھی اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی میں شک نہیں گزرا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ حقیقت ِوحی کو جاننے والے اور ان میں سب سے زیادہ پختہ یقین والے تھے۔اللہ تعالیٰ اسی سورت میں فرماتے ہیں : { قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِن کُنتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّن دِیْنِیْ فَلاَ أَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ } (یونس:۱۰۴) ’’ فرمادیجیے!اے لوگو! اگر تم کو میرے دین میں کسی طرح کا شک ہو تو (سن رکھو کہ) جن لوگوں کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو میں اُنکی عبادت نہیں کرتا ۔‘‘ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تم اس (وحی / نبوت ) میں شک کرتے ہو تو(مجھے ذرا بھر بھی شک نہیں ‘ بلکہ ) میں اس کا بھر پور یقین رکھتا ہوں۔ اس لیے میں ان کی بندگی نہیں کروں گا جن کی بندگی تم کرتے ہو۔بلکہ میں ان کا انکار کرتے ہوئے صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : {فَإِن کُنتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ } (یونس:۹۴) ’’ اگر تم کو اس کتاب کے بارے میں جو ہم نے تم پر نازل کی ہے کچھ شک ہو ۔‘‘ کہیں بھی یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس قسم کا شک کرنا جائز ہے ‘ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا شک کیا ہو، کیا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر کبھی توجہ نہیں دی: {قُلْ إِن کَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِیْنَ} (الزخرف:۸۱) ’’ فرمادیں: اگر اللہ کے اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کا عبادت گزار ہوں۔‘‘
Flag Counter