Maktaba Wahhabi

45 - 131
کیا جا سکتا۔ فاسد خیالات اور اوھام و تصورات کے مریضوں سے کتنے ہسپتال بھرے ہوئے ہیں؟ اور کمزوروں سے بڑھ کر کتنے کثیر تعداد میں طاقتور لوگوں کے دلوں پر یہ معاملات اثر انداز ہوئے ہیں؟ اور ان چیزوں نے کتنے لوگوں کو پاگل پن اور بیوقوفی کی طرف دھکیلاہے؟ بچا ہوا وہی ہے کہ جسے اللہ عزوجل نے بچا رکھا ہو۔ اور ربّ قدیر نے نفع بخش ذرائع کو حاصل کرنے کے لیے جو دل کو مضبوط رکھنے والے اور اس کے قلق کا دفاع کرنے والے ہوں، اس کو اپنے نفس کے خلاف جدو جہد کی توفیق دے رکھی ہو۔ اللہ عزوجل کا ارشادِ گرامی قدر ہے: ﴿وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۳) ’’اور جو کوئی اللہ پر بھروسا رکھے تو وہ اس کو بس ہے۔ اللہ تو اپنا کام ضرور پورا کرنے والا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا اندازہ ٹھہرا چکا ہے۔‘‘ فُھَوَ حَسْبُہُ …کا معنی ہے کہ: بندے کے تمام دینی اور دنیاوی معاملات میں اللہ رب کریم اس بندے کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔‘‘ اللہ عزوجل پر توکل کرنے والا آدمی نہایت مضبوط دل والا ہوتا ہے۔ اس دل میں خواہ مخواہ کے اوھام و خیالات اثرانداز نہیں ہوتے اور نہ ہی حادثات و مشکلات اس کو پریشان کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اسے معلوم ہوتا ہے: ایسا کرنا نفس کی کمزوری اور اس اَن جانے ڈر اور خوف کی وجہ سے ہوتا ہے کہ جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں
Flag Counter