Maktaba Wahhabi

105 - 234
یہی تھا کہ معاشی فوائد کے چھوٹے سے چھوٹے وسائل تلاش کئے جائیں، اور پھر ان سے لطف اندوزی کے عجیب عجیب طریقے نکالے جائیں، ان کے رؤسا اپنی شان ریاست کے اظہار میں جس طرح دولت صرف کرتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص کا شمار رئیسوں میں ہوتا اس کے لیے دولاکھ درہم سے کم قیمت کا تا ج پہننا عار کی بات تھی، اس کے لیے ضروری تھا کہ ایک عالی شان محل میں رہے، جس کے ساتھ آبزن(پانی کے فوارے)، حمام اور باغ بھی ہو ں۔ غلاموں کی ایک فوج اس کی خدمت میں اور قیمتی گھوڑوں کی ایک کثیر تعداد اس کے اصطبل میں ہو۔ اس کا دستر خوان نہایت وسیع ہو اور بہتر سے بہتر کھانے اس کے باورچی خانے(کچن) میں ہر وقت تیار رہیں۔ غرض یہ کہ یہی چیزیں ان کے اصول معاش میں گھس گئیں اور ایسی جم گئیں کہ دلوں سے ان کا نکلنا محال ہو گیا۔ یہ ایک بیماری تھی جو اُن کے تمدن کی رگ رگ میں اتر گئی۔ اس کے اثرات بازاروں اور گھروں تک میں پھیل گئے مزدور اور کسان تک ان سے نہ بچ سکے۔ اس نے چند محلوں میں عیش و عشرت کے سامان جمع کرنے کے لیے ملکوں اور اقلیموں کی بے شمار مخلوق کو مصائب میں مبتلا کر دیا۔ اس لیے کہ یہ سا مان جمع نہیں ہو سکتے تھے جب تک کہ ان کے لیے پانی کی طرح روپیہ نہ بہا یا جائے۔ اور اتنی کثیر دولت فراہم کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ تاجروں اور کا شتکاروں اور دوسرے محنت پیشہ طبقوں پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائے جائیں۔ پھر اگر ٹیکسوں کی زیادتی سے تنگ آکر یہ غریب طبقے روپیہ دینے سے انکار کریں تو ان کو فوجوں سے پامال کرایا جائے، اور اگر طاقت سے ڈر کر وہ اطاعت میں سر جھکادیں تو ان کو گدھوں اور بیلوں کی طرح محنت میں جوت دیا جائے کہ وہ دن رات رئیسوں کے لیے دولت پیداکریں اور ان کو دم لینے کی بھی فرصت نہ ملے، کہ خود اپنی سعادت دنیا اور آخرت کے لیے بھی کچھ کر سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں کروڑوں کی آبادی میں مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جس کی نگاہ میں دین و اخلاق کی کوئی اہمیت ہو، وہ بڑے بڑے کام جن پر نظام عالم کی بنیاد قائم ہے، اور جن پر انسانی فلاح و ترقی کا مدار ہے قریب قریب معطل ہو گئے تھے، لوگ زیادہ تر یا تو ان صنعتوں میں لگ جاتے تھے جو روساء کے لیے لوازم عیش پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں یا پھر ان فنون اور ان پیشوں کو اختیار کرتے تھے جن سے رئیسوں کو عموماً دلچسپی ہوا کرتی ہے، اس لیے کہ ان کے بغیر کوئی شخص روساء کے ہاں مقام حاصل نہیں کر سکتا تھا، اور رؤساء کے ہاں مقام حاصل کرنے کے لیے سوائے خوشحالی کے دوسرا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ایک اچھی جماعت شاعروں، مسخروں، نقالوں، گلوکاروں، رنڈیوں، مصاحبوں، شکاریوں اور اسی طرح کے لوگوں کی پیدا ہوگئی تھی جو دربار وں سے وابستہ رہتی تھی، اور ان کے ساتھ اگر اہل دین تھے بھی تو وہ حقیقت میں دیندار نہ تھے، بلکہ کسب معاش کے لیے دین کا پیشہ کر تے تھے، تاکہ اپنے زُہد کی نمائش سے یا شعبدوں سے یا اپنے مکروفریب سے کچھ کما کھائیں۔ اس طرح یہ مرض ان ممالک میں انسانی جماعت کو اوپر سے نیچے تک گھن کی طرح کھاگیا تھا۔ اس نے پوری پوری قوموں کے اخلاق
Flag Counter