Maktaba Wahhabi

125 - 234
کے متعلق فرماتے ہیں: اِذَا قَتَلُوْا وَاَخَذُوا الْمَالَ قُتِّلُوْا وَصُلِّبُوْا وَاِذَا قَتَلُوْا وَلَمْ یَاخُذُوا الْمَالَ قُتِّلُوْا وَلَمْ یُصَلِّبُوْا وَاِذَا اَخَذُوا الْمَالَ وَلَمْ یُقَتِّلُوْا قُطِّعَتْ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِنْ خِلَافٍ وَاِذَا اَخَافُوا السُّبُلَ وَلَمْ یَاْخُذُوا الْمَالَ نُفُوْا مِنَ الْاَرْضِ جب وہ قتل کریں اور مال و متاع لوٹ لیں تو انہیں قتل کیا جائے اور سولی پر چڑھا دیا جائے اور جب وہ قتل کریں اور مال و متاع نہیں لوٹا تو انہیں قتل کیا جائے اور سولی پر چڑھایا جائے، اور جب مال لوٹ لیں اور قتل نہ کریں تو ان کے ہاتھ اور پاؤں، ایک ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں، اور جب یہ لوگ مال و متاع نہیں لوٹتے اور صرف ڈراتے ہیں تو انہیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہی قول اکثر علماء کا ہے، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ بھی یہی کہتے ہیں۔ اور یہی قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے قریب قریب ہے۔ اور انہیں لوگوں میں بعض ایسے بھی ہوں گے جن کے متعلق امام و امیر﴿حکام اور جج یا قاضی﴾ کو اجتہاد اور غور کرنا ہوگا۔ قتل کرنے اور نہ کرنے کی مصلحت سامنے رکھنی ہو گی۔ اگر رئیس و سردار، پیشوائے مطاع(مریدوں اور حُروں کا ’’پیر‘‘) ہے تو اُسے قتل نہ کیا جائے۔ دوسروں کو مصلحت دیکھ کر قتل کرا دے اگر انہوں نے مال نہیں لوٹا لیکن وہ شجاع اور بہادر اور قوی ہے، اور قوت و طاقت سے مال لے سکتا ہے، اس کا بھی یہی حکم ہے۔ بعض کا قول ہے کہ اگر اس نے مال لوٹا ہے تو اُسے قتل کر دیا جائے، اور اُس کے ہاتھ کاٹے جائیں اور سولی پر لٹکا دیا جائے۔ پہلا قول اکثر علماء کا ہے۔ جو محارب﴿کرائے کے قاتل یا دہشتگرد﴾ ہیں اور انہوں نے قتل بھی کیا ہے، تو امام و امیر، اور حاکم ان پر حد جاری کرے، اور انہیں قتل کر ا دے۔ ایسے لوگوں کو معاف کرنا اور درگذر کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اور کسی حال میں جائز نہیں ہے۔ ابن المنذر کہتے ہیں اس پر علماء کا اجماع ہے۔ مقتول کے ورثاء پر اس کا دارومدار نہیں ہو گا۔ بخلاف اس کے کہ کسی آدمی نے کسی باہمی عداوت و جھگڑے کی وجہ
Flag Counter