Maktaba Wahhabi

149 - 234
اپنی ریاست و حکومت﴿کرسئ صدارت، وزارت یا چیف جسٹسی﴾ قائم کرنا چاہتا ہے کہ لوگ اُسے بڑا سمجھیں، اُس کی اطاعت کے سامنے لوگ سر بسجود ہوجائیں، اس کے قصد و ارادہ کے مطابق مال دیں اور ہر طرح کا ایثار کریں تو معاملہ بالکل برعکس ہوجاتا ہے۔ اس کے اصل مقصد سے بہت دور ہو جاتا ہے اور سراسر حد جاری کرنے کے مقصد میں وہ غلط راہ اختیار کرتا ہے ۔ روایت کی گئی ہے کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلافت پر مامور ہونے سے پہلے مدینہ طیبہ میں ولید بن عبدالملک کے نائب﴿یعنی گورنر﴾ تھے۔ رعایا اور عوام کی سیاست و اِصلاح بہت اچھی طرح کرتے تھے۔ حجاج بن یوسف عراق سے مدینہ طیبہ پہنچا۔ عراق میں یہ بڑا عذاب اور سختی دیکھ کر آیا ہوا تھا۔ مدینہ طیبہ کے باشندوں کو اس نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے متعلق پوچھا ’’کیف ھیبۃ فیکم‘‘؟ اس کی ہیبت تم میں کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا: ان کی ہیبت کا کیا پوچھنا! ہم اُن کی طرف نگاہ بھر کے دیکھ بھی نہیں سکتے۔ حجاج نے پوچھا ’’کیف محبتکم لہ‘‘؟ اُس سے تمہیں کیسی محبت ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: ’’ھو احب الینا من اھلنا‘‘ وہ ہمیں ہمارے اہل و عیال سے زیادہ محبوب ہیں۔ حجاج نے پوچھا ’’فکیف ادبہ فیکم‘‘ وہ تمہیں ادب کیسے سکھاتے ہیں؟ تو اُنھوں نے کہا تین کوڑوں سے لے کر دس کوڑوں تک ادب سکھانے کے لیے مارا کرتے ہیں۔ حجاج نے کہا یہ محبت، یہ ہیبت اور یہ ادب آسمان سے اُتری ہوئی ہے، اللہ کا حکم یہی ہے۔ جب ہاتھ کاٹا جائے تو فوراً گرم تیل میں سینک دیا جائے۔ اور مستحب یہ ہے کہ اس کی گردن میں لٹکا دیاجائے۔ اگر دوسری مرتبہ چوری کرے تو اس کا بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اور اگر تیسری مرتبہ چوری کرے تو صحابہ رضی اللہ عنہم اور بعد کے علماء میں اختلاف ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تیسری اور چوتھی مرتبہ میں بایاں پاؤں اور دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ یہ قول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اور مذہب شافعی رحمہ اللہ اور ایک روایت میں امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ دوسرا قول امام احمد رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ اُسے قید کر دیا جائے۔ اور یہ قول سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور کوفیوں کا ہے۔ اور ایک قول امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی ہے۔ ہاتھ اس وقت کاٹا جائے جبکہ چوری کا نصاب پورا ہو اور وہ ایک چوتھائی دینار یا تین درہم ہے۔
Flag Counter