Maktaba Wahhabi

165 - 234
لڑکے سے چھیڑ چھاڑ کرے اُسے اس کے مقابلہ میں جو عام طور پر عورتوں اور لڑکوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، کم سزا ہونی چاہیے اور کم سے کم تعزیر کی کوئی حد مقرر نہیں کہ اتنی ہونی چاہیئے کیونکہ تعزیر کا مقصد تکلیف پہنچانا ہے۔ اب خواہ وہ﴿تعزیر و سزا﴾ قول سے ہو یا فعل سے، اس سے بات چیت ترک کر دینے سے ہو یا پہلے کوئی سلوک کر رہا تھا اور کسی قسم کی رواداری کا برتاؤ کر رہا تھا﴿اور اب﴾ اُسے ترک کرنے سے ہو۔ یا نصیحت و وعظ کے ذریعہ یا توبیخ و تنبیہ(ڈانٹ ڈپٹ) اور سختی سے ہو۔ مقصد یہ ہے کہ اُسے تکلیف پہنچے اور تعزیر ہوجائے۔ کبھی یہ مقصد قطع تعلق اور علیک سلیک بند کر دینے سے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ غرض یہ کہ جب تک وہ توبہ نہ کرے اُسے تکلیف و تعزیر ہونی چاہیے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مخلص صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے علیک سلیک اور بات چیت بند کر دی تھی ۔ اور والی و حاکم﴿حکمران، وزیرو مشیر، قاضی و جج، گورنر و سپہ سالار اور دیگر افسران﴾ سے کوئی جرم ایسا ہوجائے کہ اس میں حد مقرر نہیں ہے تو اُسے حکومت و ولایت﴿یعنی عہدے﴾ سے معزول کیاجائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا تھا۔ کبھی تو فوجی و عسکری خدمات سے سبکدوش کرنے کی تعزیر﴿و سزا﴾ کی جائے کہ وہ مسلمانوں کی فوجی و عسکری خدمات انجام دیتا تھا اس سے اس کو علیحدہ کر دیا مثلاً وہ فوج اور لشکر کہ کفار سے لڑ رہا تھا تلواریں آمنے سامنے چل رہی ہیں اور کوئی مسلمان فوج میں سے بھاگ نکلا کہ فرار من الزحف یعنی جنگ سے بھاگنا کبیرہ گناہ ہے اس کی روٹی اس کا کھانا پینا بند کر دینا ایک قسم کی تعزیر ہے۔ اسی طرح اگر امیر و حاکم سے کوئی ایسی حرکت ہوجائے جو بہت بڑی اور بہت بری سمجھی جاتی ہو اور لوگ اس سے نفرت کرتے ہوں تو اُسے امارت و حکومت سے معزول کر دینا چاہیے۔ یہ اس کی تعزیر ہے اسی طرح کبھی حبس و قید کی تعزیر کی جائے اور کبھی اس کا منہ کالا کیا جائے اور اسے الٹے منہ گدھے پر سوار کیا جائے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے کی تعزیر آپ رضی اللہ عنہ نے ایسی کی تھی۔ اس لیے کہ جھوٹ بولنے والے نے جھوٹ سے اپنا منہ کالا کیاتو اس کا منہ کالا کیاگیا۔ اور بات کو مقلوب(الٹا) کر دیا تو اسے مقلوب الٹے منہ گدھے پر سوار کیاگیا اور اس کی
Flag Counter