Maktaba Wahhabi

170 - 234
کے بعد دوسری مرتبہ تارکِ نماز، تارکِ زکوۃ کو مارا اور پیٹا جائے گا یہاں تک کہ اس پر جو حقوق ہیں ادا کرنے لگ جائے۔ اور صحیحین کی وہ حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یجلد فوق عشرۃ اسواط الا فی حد من حدود اَللّٰه حدود الٰہی کے سوا دس کوڑوں سے زیادہ تعزیر نہ کی جائے۔ اس کی تفسیر علماء کی ایک جماعت یہ کر رہی ہے کہ اس سے مراد حدود الٰہیہ ہیں جو اللہ کے حق کے لیے حرام کی گئی ہیں کیونکہ قرآن و سنت میں جہاں حدود کا لفظ آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ حلال و حرام میں حد فاصل ہے۔ یعنی حلال کی آخری حد اور حرام کی پہلی حد کے درمیان ایک حد فاصل ہے۔ حلال کی آخری حد کے متعلق اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰه فَلاَ تَعْتَدُوْھَا(البقرۃ:229) یہ اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود ہیں انہیں مت پھلانگو۔ اور حرام کی پہلی حد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰه فَلاَ تَقْرَبُوْھَا(بقرۃ:188) یہ حدودِ الٰہی ہیں ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اب رہی یہ بات کہ اس عقوبت و سزا کو حد کیوں کہاگیا تو جواب یہ ہے یہ عرف عام ہے اور حقیقت وہی ہے جو ہم نے پہلے بیان کی۔ اور حدیث سے مراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے حق کے لیے اگر مارے مثلاً مرد اپنی بیوی کو مارے کہ کسی وجہ سے باہم ناچاکی اور کھچاؤ پیدا ہوگیا ہے تو اس کا فرض یہ ہے کہ دس کوڑوں سے زیادہ نہ مارے۔
Flag Counter